انقلابی اسلام آباد میں گھومنے کی خواہش پوری کرنے سے محروم
اسلام آباد : نازیہ گلزار اپنی زندگی میں پہلی بار اسلام آباد آئی ہے، ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی یہ سولہ سالہ لڑکی پاکستان عوامی تحریک(پی اے ٹی) کے دھرنے میں اپنے والد کے ہمراہ شریک ہے جو طاہر القادری کے کٹر حامی ہیں۔
پی اے ٹی کے دیگر حامیوں کی طرح نازیہ گلزار دن اور راتیں سڑک پر اپنے خاندان کے ساتھ گزار رہی ہے۔
اس کا کہنا ہے" اسلام آباد آنے سے قبل میں خوش تھی کہ میں دارالحکومت میں اپنے قیام کے دوران یہاں کے تمام معروف سیاحتی مقامات کو دیکھ سکوں گی"۔
مگر بدقسمتی سے نازیہ تو شکرپڑیاں اور راول جھیل تک کو دیکھنے سے محروم رہی ہے۔
وہ مزید بتاتی ہے" میرے والد نے مجھ سے اور میری بہنوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ تمام سیاحتی مقامات پر ہمارے جانے کا انتظام کریں گے مگر طاہر القادری کی ہدایات کے باعث ان کے لیے دھرنے کو چھوڑ کر جانا مشکل ہے"۔
نازیہ کے مطابق اس کے والد نے اس کی والدہ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ حکومت دو یا تین روز میں پی اے ٹی کے مطالبات کو تسلیم کرلے گی جس کے بعد ہمارا خاندان مزید ایک یا دو روز اسلام آباد میں رہ کر معروف مقامات کو دیکھ سکے گا۔
اس نے کہا" یہ افسوسناک ہے کہ حکومت اور پی اے ٹی کی قیادت اپنے اختلافات کو گزشتہ اکیس روز کے دوران مذاکرات کے ذریعے حل کرنے سے قاصر رہی ہے، جس کی وجہ سے دھرنے کے شرکاءکی مشکلات میں روزانہ اضافہ ہورہا ہے"۔
اس کا کہنا تھا" ایسا لگتا ہے کہ مجھے اپنے گھر معروف مقامات تو کیا دھرنے کے قریب واقع اسلام آباد کے چڑیا گھر کو بھی دیکھے بغیر جانا پڑے گا"۔
اسی طرح ضلع راجن پور کی انیس سالہ رہائشی ثمینہ انور بھی پی اے ٹی کے دھرنے میں شریک ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ وہ پہلی بار اسلام آباد آئی ہے اور دارالحکومت کے تمام سیاحتی مقامات کو دیکھنا اس کا خواب ہے جو اس نے ٹیلیویژن میں دیکھے ہیں۔
ثمینہ نے کہا" اگرچہ میں اسلام آباد دھرنے میں شرکت کے لیے اپنے والدین کے ہمراہ آئی ہوں، مگر مجھے اپنے دھرنے کے سابقہ مقام قریب واقع روز اینڈ جیسمین گارڈن تک جانے کا موقع ملا، تاہم میری خواہش ہے کہ اسلام آباد کے تمام معروف مقامات کو دیکھوں"۔
اس کا کہنا تھا کہ وہ وہ اپنے تجربات اپنی کالج کی سہلیوں سے شیئر کرنا پسند کرتی ہے تاہم ابھی تک وہ انہیں دھرنے کے علاوہ کچھ اور بتا نہیں سکی ہے۔
ضلع بھکر سے آنے والی 33 سالہ ہاجرہ اسلم کا کہنا ہے کہ دھرنے میں اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ شریک ہیں۔
انہوں نے بتایا"میرے بچے چڑیا گھر اور دیگر معروف مقامات جانا چاہتے ہیں مگر میرے بڑے بیٹے کو بخار ہونے کے بعد سے میں بچوں کو یہاں سے باہر لے کر نہیں جاسکی ہوں، میں اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ تمام مقامات پر جانے کی کوشش کروں گی کیونکہ ہمارے لیے بار بار اسلام آباد آنا مشکل ہے"۔
خیبرپختونخوا کے ضلع کرک کے 29 سالہ رہائشی نجم اللہ خٹک چودہ اگست کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دھرنے میں شرکت کے لیے اسلام آباد پہنچے تھے اور ان کا کہنا ہے"میں ایک ہوٹل میں اپنے دوستوں کے ہمراہ مقیم ہوں کیونکہ ہمارے لیے سڑک پر رہنا مشکل ہے"۔
نجم اللہ نے مزید کہا کہ وہ خود کو خوش قسمت سمجھتا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت نے ہمیں دھرنے کے مقام پر رہنے کے لیے مجبور نہیں کیا۔
انہوں نے مزید بتایا" میں ریڈ زون میں شام پانچ بجے کے بعد تین یا چار گھنٹے کے لیے جاتا ہوں، اس کے علاوہ میں باقی دن اپنے دوستوں کے ساتھ دارالحکومت کے مختلف مقامات کی سیر کرتے ہوئے گزارتا ہوں"۔
دونوں جماعتوں کے حامیوں کے مطابق دھرنے میں شریک افراد کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے پی اے ٹی کے حامی اسلم ملک نے ڈان کو بتایا کہ آبپارہ چوک میں عوامی تحریک کے دھرنے میں لوگوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، تاہم تیس اگست کو پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے بعد سے شرکاءکی تعداد میں کمی آئی ہے۔
اسلم ملک کا کہنا تھا کہ آبپارہ چوک پر شرکاءکی تعداد پندرہ سے بیس ہزار تھی مگر اب بمشکل چھ سے آٹھ ہزار افراد ہی باقی رہ گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا" طویل دھرنے نے شرکاءکی مشکلات کو بڑھا دیا ہے، مختلف امراض، پولیس آپریشن کا ڈر اور مسلسل بارشوں کے باعث لوگوں کی تعداد میں کافی کمی آئی ہے"۔
تاہم پی ٹی آئی کے ایک ورکر حسن خان کا کہنا تھا"یہ ٹھیک ہے کہ شرکاءکی طاقت اولین دو روز میں کم ہوئی تھی مگر ہزاروں مزید افراد دھرنے میں شریک ہوئے ہیں"۔
حسن خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کے بیشتر حامی مختلف ہوٹلوں میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور وہ دھرنے کے مقام پر شام پانچ بجے کے بعد آتے ہیں۔
حسن نے مزید بتایا" پی ٹی آئی کے دھرنے میں لوگوں کی تعداد ہفتے کے آخر میں بڑھ جاتی ہے ورنہ یہ بات ٹھیک ہے کہ شرکاءکی تعداد میں روزانہ کی بنیاد میں کمی آرہی ہے"۔