نقطہ نظر

اصلاحات کے نفاذ میں مشکلات

اصلاحات تب رک جاتی ہیں جب فیصلہ سازوں کی طرف سے اپنایا گیا پلان ان کے سیاسی حلقے کے مفادات کے متوازی ہو جائے۔

اصلاحات کی ضرورت محسوس کرنے، اور اصلاحات نافذ کرنے میں ایک خلیج حائل ہے۔ اس لیے زبانی اصلاحات ہمیشہ حقیقی اصلاحات سے زیادہ ہوتی ہیں۔ آخر اصلاحات کے بیانات اور ان کے نفاذ میں یہ خلیج ہے ہی کیوں۔

اس کی ایک وجہ اصلاحات کا پلان بنانے، اور ان کو نافذ کرنے کے لیے انتظامی مشینری میں قابلیت کا نا ہونا ہے، جب کہ گورننس نظام کا آہستہ آہستہ بکھرنا بھی اس کی وجہ ہے۔

حکومتی اداروں میں معیار اور اقدامات ایک لمبے عرصے سے تنزلی کا شکار ہیں۔ ایک پیچیدہ ہوتے ہوئے معاشرے میں صرف کرپشن، اور بدانتظامی سے بیوروکریٹس کا فائدہ اٹھانا ہی وجہ نہیں ہے۔ جدید گورننس سسٹم میں گلوبل اور ٹیکنیکل مہارت کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے انتظامی اسٹرکچر کو ابھی یہ مہارت حاصل کرنا باقی ہے، اسی لیے اصلاحات کا تصور پیش کرنے، ان کو پلان کرنے، اور نافذ کرنے میں اتنی مشکلات کا سامنا ہے۔

لیکن ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے، کہ فیصلہ ساز لیڈرشپ کو دو مختلف گروہوں سے معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ پہلے، مقامی و بیرونی نجی سرمایہ کار، اور عالمی برادری کے ڈونر، جن کے قرضے بڑھانے ہوتے ہیں۔ دوسرا گروہ وہ سیاسی حلقے، جن کے مفادات کا تحفظ اور خدشات دور کرنا ضروری ہوتا ہے۔

اصلاحات کا مرحلہ تب ٹھہر جاتا ہے، اور کبھی کبھی رک بھی جاتا ہے، جب فیصلہ سازوں کی طرف سے اپنایا گیا پلان ان کے سیاسی حلقے کے مفادات کے متوازی ہو جائے، خاص طور پر وہ حلقہ جو بھلے ہی تعداد میں کم ہو، پر مضبوط آواز اٹھا سکے۔

مختلف لوگوں کے لیے اصلاحات کے معنی مختلف ہوں گے۔ وہ بیوروکریٹ اور وہ ٹیکنوکریٹ جو عالمی مالیاتی اداروں میں بیٹھ کر ان اصلاحات کو ترتیب دیتے ہیں، اور ان سیاستدانوں کے لیے بھی، جنہیں ان اصلاحات کو نافذ کرنا ہوتا ہے۔

وہ عوامل، جن کی وجہ سے کسی اصلاحی پیکج کے قابل قبول ہونے نا ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے، وہ اس پیکج اور نافذ کرنے والوں کی ساکھ ہے۔ یہ اس لیے ہے، کیوںکہ گورننس سسٹم کی تنزلی نے عوام کا معیار زندگی اونچا کرنے کی حکومت کی قابلیت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

بیوروکریٹس اور قانون سازوں کی جانب سے فیلڈ میں پیش آنے والی مشکلات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، اور ان لوگوں کی جانب سے رد عمل جن کے مفادات سسٹم کے بغیر اصلاحات چلتے رہنے سے وابستہ ہیں، ان کی وجہ سے یا تو اصلاحات مکمل طور پر رک جاتی ہیں، یا ان کے مقاصد حاصل نہیں ہونے دیے جاتے۔

ساکھ کے نا ہونے کی وجہ سے عوام کو اس بات پر قائل کرنا مشکل ہو جاتا ہے، کہ اصلاحات کی ضرورت کیوں ہے۔ خاص طور پر یہ تب ہوتا ہے، جب اصلاحات کے نتائج فوری طور پر حاصل نا ہونے والے ہوں، اور فوائد خرچ سے کم ہوں۔ یا پھر تب بھی، جب ان کو اس بارے میں بے یقینی ہو کہ آیا وہ اصلاحات سے فائدہ اٹھائیں گے یا نقصان۔

اس صورتحال میں کسی کے لیے بھی یہ مشکل ہو گا کہ وہ موجودہ مفادات، سسٹم، اور اسٹرکچر کو چھوڑ کر مستقبل کے غیر یقینی فوائد کے لیے اصلاحات کو قبول کرے۔

ٹیکس ادا کرنے والوں، اور کسی سروس کے صارفین کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ اصلاحات ان کو فائدہ پہنچانے کے لیے نہیں کی جاتیں، اور اس بارے میں قائل نہیں ہوتے، کہ حاصل ہونے والے فوائد وہی ہوں گے جن کا وعدہ کیا گیا ہے۔

اس لیے، جب تک کہ ان خیالات کو تبدیل نہیں کیا جائے گا، اصلاحات کے لیے مطلوبہ حالات تیار نہیں کیے جا سکتے۔ اس ٹاسک کی تکمیل میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے، کہ پاکستان کلچر اور زبان کے حوالے سے ہم آہنگی رکھنے والا ملک نہیں ہے، اور نا ہی یہاں ایک بااثر سول سوسائیٹی ہے۔ اس سب کے لیے اصلاحات کے ایک بہتر ڈیزائن کی ضرورت ہے، جس میں معاملات کی ترتیب کا خاص خیال رکھا جائے، اور حکومت مجوزہ اصلاحات کی مکمل ذمہ داری لے۔

اس بحث کا مقصد یہ کہنا نہیں ہے، کہ پاکستان میں اصلاحات کا نفاذ ناکام رہا ہے۔ بھلے ہی نفاذ بے دلی سے کیا گیا، ان کی رفتار اور ان پر سیاسی ہم آہنگی مزید بہتر کی جاسکتی تھی، لیکن 1991 سے لے کر اب تک بیرونی تجارت، خزانہ، اور ٹیلی کام سیکٹر میں دور رس اصلاحات کی گئی ہیں۔

کچھ نسبتاً آسان سیکٹروں میں اصلاحات تیزی سے ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ اصلاحات کا نفاذ ان جگہوں پر زیادہ بہتر طور پر ہوا ہے، جہاں اخراجات کم منظم گروپوں کو اٹھانے پڑے، جبکہ فوائد انہیں حاصل ہوئے جو زیادہ منظم تھے۔ اس کی واضح مثال رینٹل پاور پلانٹ اور کے-الیکٹرک ہیں۔

ان دونوں اقدامات میں فیصلہ سازوں اور عالمی پاور انڈسٹری کی پوری مداخلت شامل تھی، جب کہ صارفین کا (ان کے منتخب نمائندوں کے ذریعے) کوئی Input نہیں تھا، جب کہ ریگولیٹر یعنی حکومت کے پاس طاقت اور اہلیت کی کمی تھی۔

بنیادی اصلاحات کی امراء کی جانب سے مخالفت ہمیشہ اور کامیابی سے کی جائے گی، جبکہ دوسری اصلاحات کا نفاذ ایک سست اور تکلیف دہ عمل ہے، جن کے لیے مائنڈسیٹ اور رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ٹیکنوکریٹک حل کبھی بھی ایسا اصلاحی پروگرام ترتیب نہیں دے سکتے، جن کو سیاسی طور پر مارکیٹ کیا جا سکے۔

یہ صرف طاقتور گروہوں کے مفادات کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس وجہ سے بھی ہے کہ نفاذ کا دورانیہ سیاسی حکومتوں کی مدت سے ترتیب میں نہیں ہے۔ اور اس وجہ سے بھی ہے کہ ان اصلاحات سے متاثر ہونے والے لوگوں کے خدشات کو شفاف اور مناسب طریقے سے نہیں سنا جاتا۔

اس لیے کمپرومائز کا راستہ اپنا کر، آہستہ آہستہ اصلاحات لا کر ہی پاکستان کے مستقبل کو بہتر کیا جا سکتا ہے، اور مزید اصلاحات کے نفاذ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 2 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

شاہد کاردار
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔