تبدیلی کی موت
اگر افراد کی بات کی جائے، تو ہمارے پاس انتخاب کرنے کے لیے یہ یہ لوگ موجود ہیں: انقلابی لیڈر، جو اپنے لوگوں کو تشدد پر اکساتے ہیں تاکہ وہ ریاست کے سولین اداروں پر حملہ کریں، اور پھر رات کے اندھیرے میں آرمی چیف کی سرپرستی حاصل کرنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں؛ ایک وزیر اعظم، جو اپنے آرمی چیف سے حفاظت چاہتا ہے، لیکن اتنی ہمت نہیں رکھتا کہ سب کے سامنے اس کا اقرار کر سکے، اور جس کی نااہلی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اسلام آباد کو کچھ ہزار مظاہرین نے یرغمال بنا رکھا ہے؛ اور ایک ہچکچاتا ہوا ثالث، سب سے بڑا مسیحا، اور ایک ذمہ دار سیاست دان، ہمارا آرمی چیف۔
کون جیتا کون ہارا؟ اندرونی اختلافات کی نذر ہو کر سیاست دان بدنام ہو چکے، جبکہ خاکی وردی والوں کے اختیار بڑھے ہیں۔ عمران خان اور طاہر القادری نے اہم سویلین اداروں، انتظامیہ، عدلیہ، پارلیمنٹ، اور الیکشن کمیشن، کی قانونی حیثیت ختم کرنے کے لیے ہاتھ ملا لیے ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے، کہ یہ ادارے پاکستان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بالکل بھی کارآمد نہیں ہیں۔ تو اس کا حل؟ وزیر اعظم کو باہر نکالو، اور پھر فوج کی زیر نگرانی ان اداروں کو اصلاحات اور بہتر کارکردگی دکھانے دو۔
جمہوریت ایک بار پھر وینٹی لیٹر پر کیوں پہنچ گئی ہے؟ کیونکہ طاقت حاصل کرنے کے خواہشمند ہر سیاست دان کا دوسرا انتخاب اب بھی فوج ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کا سوال ہے کہ آخر انقلابی اچانک کیوں اسلام آباد میں در آ کر وزیر اعظم کا استعفیٰ طلب کرنے لگے ہیں۔ اس کا ایک جواب یہ ہو سکتا ہے، کہ ڈور کہیں اور سے ہلائی جا رہی ہے۔ اگر مارچوں کو ترتیب خاکی وردی والوں نے دیا تھا تاکہ نواز شریف کو پرویز مشرف کے ٹرائل، اور غدار جیو کی جانب سے آئی ایس آئی کو بدنام کرنے پر سبق سکھایا جا سکے، تو ہو سکتا ہے کہ وہ تین چیزیں حاصل کرنا چاہیں۔ پہلا، نواز شریف کو مکمل طور پر کمزور کر کے اپنے رحم و کرم پر کر لیا جائے، دوسرا یہ کہ ایک ایسا سیٹ اپ لایا جائے جو وردی والوں کے کنٹرول میں ہو، تیسرا یہ کہ حالات مزید خراب کرکے براہ راست مداخلت کر لی جائے۔
اگر فوج خود ہی انقلاب کو بڑھاوا دے رہی ہے، تو کیا آپ اس انقلاب کو ٹھنڈا کرنے کے لیے انہی کے چیف کی مدد حاصل کرنا چاہیں گے؟ ہاں، پر صرف تب جب فوج آپ کو کمزور کر کے اپنے اشاروں پر چلائے، پر آپ کی کرسی برقرار رکھنے کے لیے آمادہ ہو جائے۔ یا پھر تب، جب آپ نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا، اور اس بات پر یقین رکھا کہ آپ سیاسی مخالفین کو فوج کی مدد سے دبا سکتے ہیں۔
1990 میں مسلم لیگ ن نے واپڈا کی بحالی سے لے کر نہروں کی صفائی تک، ہر کام کے لیے فوج پر اعتماد کیا۔ اور اب اس نے ایک بار پھر عمران خان اور طاہر القادری کو سبق سکھانے کے لیے فوج سے مدد حاصل کی ہے۔ اگر فوج نے ہی اس پورے تلاطم کو ترتیب دیا ہے، تو کیا کوئی عقلمند حکومت مصیبت کے وقت اسی کے پاس جائے گی؟ اس پارلیمنٹ کو چھوڑ کر، جس کی حمایت کی وجہ سے اب تک وہ قائم ہے۔
اس کے بعد عمران خان صاحب ہیں، جو کنٹینر پر کھڑے ہو کر بتاتے ہیں کہ کیسے انہوں نے آرمی چیف کو کہا کہ وہ نواز شریف پر بھروسہ نہیں کر سکتے، جنہوں نے 1990 کے شروع میں آئی ایس آئی سے پیسے لے کر الیکشن جیتا۔
حیرت انگیز طور پر عمران خان یہ نہیں سمجھ پائے، کہ کیسے ایک سابق آرمی چیف نے اسلامی جمہوری اتحاد کو تشکیل دیا تھا، جس پر سپریم کورٹ نے انہیں بعد میں مورد الزام ٹھرایا، اور کیسے ایک سابق آئی ایس آئی چیف نے پیسے تقسیم کیے تھے تاکہ اسلامی جمہوری اتحاد کو فتح دلوائی جا سکے۔
اگر عمران خان ایک ایسے انقلابی ہیں جو "اسٹیٹس کو" کو توڑ کر تبدیلی لے آئیں گے، تو ان کے "خالص جمہوریت" کے ماڈل میں آرمی چیف کا کیا کردار ہو گا؟ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ فوج کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے، تو کیا انہیں چیف سیکورٹی آفیسر کے پاس اپنے سیاسی مطالبات لے کر جانا چاہیے تھا؟ یا پھر وہ بھی اس بات کو سمجھ چکے ہیں، کہ فوجی مداخلت کے بغیر ان کا انقلاب صرف کنٹینر تک ہی محدود رہ جائے گا۔
انقلاب کے بعد پاکستان کا سیاسی کلچر کتنا مختلف ہو گا؟ نواز شریف پارلیمنٹ میں چودھویں ترمیم لائے تھے، جس کے مطابق پارٹی سربراہ سے اختلاف کرنے والا ممبر نااہل قرار پائے گا۔ عمران خان، جو کہ اپنی پارٹی کی اندرونی جمہوریت پر فخر کرتے ہیں، نے دھمکی دی ہے کہ جن ممبران پارلیمنٹ نے استعفیٰ نہیں دیا، انہیں پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔ نواز شریف پر الزام ہے کہ ان کے سامنے جو بھی آئے، وہ اسے خرید لیتے ہیں۔ جبکہ عمران خان سے جو بھی اختلاف کرے، وہ اس کے کردار اور آبرو پر بیانات جاری کردیتے ہیں۔
اب تک عمران خان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے، کہ وہ سیاست میں کبھی دلچسپی نا لینے والے طبقے کو انکے گھروں سے باہر نکال کر مین اسٹریم سیاست میں لانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ لیکن اب وہ اس سب کو خود خراب کر رہے ہیں۔ پچھلے کچھ مہینوں میں وہ اپنے وفاداروں کو ایسی جنونی سیاست میں لے آئے ہیں، جہاں تمام سویلین ریاستی اداروں کی کوئی حیثیت نہیں، جہاں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے، جہاں قانونی مرحلے کے لیے صبر نہیں کیا جاتا، جہاں الزامات لگانے کے لیے ثبوتوں کی ضرورت نہیں ہے، اور نا ہی دوسروں کی عزت و آبرو کی پرواہ کی جاتی ہے۔
عمران خان کی حالیہ سیاست نے اس مایوس قوم کو انتہائی حد تک تقسیم کردیا ہے۔ انقلاب کا جنون اتنا زیادہ ہو گیا ہے، کہ پی ٹی آئی کے اسد عمر جیسے انتہائی ذہین رہنما بھی یہ کہتے ہیں، کہ افضل خان کے ٹی وی پر الزامات کے بعد اور کسی ثبوت کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔
نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ ہر شام دہرایا جاتا ہے، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا، کہ انقلاب کے بعد پاکستان کی تشکیل نو کس طرح کی جائے گی۔
انقلابیوں کے پاس اتنی عددی قوت نہیں تھی، کہ وہ اسلام آباد پر قابض ہو سکیں، اور نا ہی دھرنا ہمیشہ جاری رہ سکتا تھا۔ ان کا پورا بھروسہ صرف اس بات پر تھا، کہ وزیر اعظم پریشر میں آ کر کچھ غلطی ضرور کریں گے، اور وہ تب ہوا، جب نواز شریف نے مسئلے کے حل کے لیے آرمی چیف کو پکارا۔
انقلابیوں کو معلوم تھا، کہ ان پر طاقت کا استعمال سے انہیں عوام کی وہ ہمدردی حاصل ہو سکے گی، جو انہیں ویسے حاصل نہیں تھی۔ ہجوم حکومتوں کو ہٹا سکتے ہیں، لیکن وہ اپنی مرضی کی حکومتیں نہیں لا سکتے۔ اگر نواز شریف بچ جاتے ہیں، تو یہ ایک معجزہ ہوگا۔ لیکن اس سے بھی بڑا معجزہ ہو گا کہ اگر فوج عمران خان کو حکومت کرنے کی اجازت دے دے۔
Praetorianism ایسا ہی دکھتا ہے۔ اس وقت جنرل راحیل شریف انچارج ہیں، جبکہ فوج ایک بار پھر آخری حل اور مسیحا کے طور پر سامنے آچکی ہے۔ ایک قانونی سسٹم کو ڈی-فیکٹو سسٹم کے تابع لایا جا چکا ہے۔ جب عمران خان اور طاہر القادری آرمی چیف کے پاس حاضری پر خوش تھے، تو کسی نے ٹوئٹر پر ٹھیک ہی لکھا تھا کہ، "نیا پاکستان پرانے پاکستان سے کس قدر ملتا جلتا ہے"۔
لکھاری وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں، اور ٹوئٹر پر babar_sattar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 1 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔