تاریخ کی تکرار
ان انتخابات کو پاکستان کی تاریخ کا اہم باب قرار دیا گیا۔ انتخابات کے نتیجے میں ایک مشہور سیاسی جماعت نے واضح کامیابی حاصل کی۔ پنجاب میں انتخابی نشستوں پر دھاندلی کا الزام لگا۔
وزیر اعظم پر لاہور میں قتل و غارت کے الزام میں FIR درج کروائی گئی اور تمام بڑے شہروں میں امن وامان کی صورت حال کشیدہ ہو گئی۔ چند افسران نے مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کرتے ہوئے نوکریوں سے استعفیٰ دے دیا۔ وزیر اعظم پر ڈکٹیٹر ہونے کا الزام بھی لگایا گیا۔
حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ چلتا رہا حتیٰ کہ ایک موقعے پر تصفیے کی صورت بھی پیدا ہو گئی۔ حکومت کو فوج سے خطرہ محسوس نہ ہوا کیونکہ آرمی چیف وزیر اعظم نے اپنی مرضی سے منتخب کیا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں میں گجرات کے چوہدری اور ملائیت کے علم بردار شامل تھے۔
تاریخ سے نابلد افراد سے گزارش ہے کہ یہ حالات موجودہ حکومت اور انقلاب/آزادی مارچ کے تصادم سے متعلق ہر گز نہیں، یہ کہانی سنہ 1977ء کی ہے۔
غور طلب بات ہے کہ بہت سے کردار بدل گئے، لیکن اس کھیل کے لکھاری اور ہدایت کار ابھی تک وہی ہیں۔ مندرجہ بالا حالات کے نتیجے میں فوج نے حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور گیارہ سال تک ضیا الحق صاحب نے ملک پر حکمرانی کی۔
انصافی اور قادری سلسلے سے تعلق رکھنے والوں کیلیے اس کہانی میں یہ سبق پنہاں ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو آمر کی حکومت میں کوئی حصہ نہیں ملا تھا اور وہ خالی ہاتھ ہی رہ گئے تھے۔
گزشتہ 67 برس میں ہمارے ملک کو بہت سے سیاسی، معاشی اور دفاعی بحرانوں کا سامنا کر نا پڑا ہے۔ مختلف ادوار میں جنگیں، سیلاب، زلزلے اور قحط جیسے وبال جان واقعات سے ہم نمٹ چکے ہیں۔
ہندوستانی افواج کے پاکستانی زمین پر حملے یا طالبان کی بربریت سے نپٹتے وقت بھی وفاق اور اسکے اداروں کو اتنے خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑا جتنا اب کرنا پڑ رہا ہے۔ کسی جنگ، کسی سیلاب، کسی زلزلے یا کسی دہشت گرد کو کبھی اتنی جرأت نہیں ہوئی کہ پاکستان کی پارلیمان پر دھاوا بول دے۔
یاجوج ماجوج کی اس فوج سے جب اس غیر قانونی، غیر جمہوری اور جاہلانہ اقدام کے بارے میں سوال کیا جائے تو کوئی انتخابات کی دھاندلی پر تقریر شروع کر دیتا ہے، کوئی ان عمارات کو اپنے ٹیکس سے تعمیر شدہ قرار دیتا ہے تو کوئی پارلیمان کی نااہلی کی صدا بلند کرتا ہے۔
نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے لیکن ان عقل مندوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ادارے اینٹ اور گارے کے بجائے اصولوں اور نظریات پر قائم ہوتے ہیں۔
پولیس پر تشدد اور دہشت گردی کا الزام لگانے والے کیا اپنے گھروں پر کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کو چڑھائی کی اجازت دیں گے؟
ہٹلر یوتھ سے مشابہت رکھنے والے سوشل میڈیا کے شاہسوار وینزویلا، غزہ، امریکہ اور پشاور کے چرچ حملے کے مناظر کو اسلام آباد سے منسوب کر رہے ہیں۔
اسلام آباد کی ایک سڑک پر موجود ہنگامہ آرائی کو پورے ملک پر زبردستی تھوپنے والے میڈیا چینل غیر جانبداری سے مکمل طور پر ہاتھ دھو چکے ہیں۔
مظاہرین کے سربراہ نت نئے شوشے چھوڑنے میں مصروف ہیں۔ پرویز الہیٰ صاحب کو آنسو گیس میں کیمیائی ہتھیار نظر آ ئے اور سونامی خان صاحب بہادری کے نعرے لگانے کے بعد اپنی جان کے خطرے میں ہونے کا اظہار کرتے رہے۔
خان صاحب کے مطابق تبدیلی کے لیے جانی قربانی ضروری ہے، جبکہ انکے کارکنان جانی قربانیوں کے خلاف سیخ پا ہوئے بیٹھے ہیں۔
قادری صاحب امن وامان کی مالا جپتے جپتے ڈنڈا بردار کارکنان کو پارلیمان اور دیگر سرکاری عمارتوں کی جانب بھیج دیتے ہیں۔ پولیس والے ڈنڈا برگیڈ کو انہی کی زبان میں جواب دیں تو سرکاری دہشت گردی کا الزام لگتا ہے۔
لاہور میں گزشتہ روز منچلوں نے میٹرو بس کے راستے پر آگ لگا دی اور اسکے سٹیشنوں پر توڑ پھوڑ شروع کی۔ ظاہر ہے کہ میٹرو بس بھی تو عوام کے پیسے ہی سے بنی ہے۔ اس جلاؤ گھیراؤ کا ایک ہی مقصد ہے: ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ ’مقتدرہ حلقے‘ کارروائی کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
ان طالع آزماؤں کو اس بات کی قطعی پرواہ نہیں کہ تاریخ انہیں کس طرح یاد رکھے گی، اور ان کی اس شر انگیزی نے جمہوریت کو کتنا کمزور کر دیا ہے۔ ان جہلائے اعظم نے گزشتہ سات سال کے جمہوری فوائد کو دو دنوں میں جتنا نقصان پہنچایا ہے، اتنا تو مقتدرہ حلقے کئی سال میں نہیں پہنچا سکے۔
شریف حکومت نااہل اور کرپٹ سہی، لیکن قانونی طو ر پر استعفیٰ دینے کا کوئی جواز موجود نہیں۔ حکومت نے مظاہرین سے نمٹنے میں نالائقی کا ثبوت دیا ہے اور اس معاملے پر ان سے جواب طلبی کی ضرورت ہے۔ یہ جواب طلبی ایوان میں ہو سکتی ہے، لیکن سڑکوں پر نہیں۔
انقلابیہ اور قادریہ کارکنان احتجاج کے جمہوری حق کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اس حق کو بنیاد بنا کر جمہوری اداروں پر چڑھائی کرنا چاہتے ہیں۔
ان جیسے شرپسندوں کو آمریت کے دور میں ایسی آزادی ملنا نا ممکن ہے۔ مصر کی مثالیں دینے والے خان صاحب کو اس طرح کی حرکتوں پر مصر میں پہلے ہی روز گرفتار کر لیا جاتا۔
خواتین اور بچوں کو بطور ڈھال استعمال کرنے والے آج ان خواتین اور بچوں پر لاٹھی چارج کا رونا رو رہے ہیں۔ اتنی ہی فکر تھی تو ان معصوموں کو اپنے ساتھ دھکیلنے کی کیا ضرورت تھی؟
ہمارے احباب میں کئی ظاہری طور پر پڑھے لکھے لوگ شریف برادران کو پھانسی پر لٹکانا چاہتے ہیں اور انکے خیال میں امریکہ اور ہندوستان شریف برادران کی حمایت کر رہے ہیں۔یہ امر واضح ہے بھٹو صاحب کی وفات سے درمیانے طبقے نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اقتدار کی ہوس میں یہ شائقین ہر ناجائز قدم اٹھانے کو تیار ہیں۔
مقتدرہ حلقے بذات خود کوئی قدم اٹھانے کے بجائے اپنے مہرے استعمال کر رہے ہیں اور اسی لیے وفاقی عمارتوں کی حفاظت پر معمور فوجیوں نے کسی مزاحمت کا مظاہرہ نہیں کیا۔
اسلام آباد پولیس کے تین افسران کے استعفے اس بات کی نشانی ہیں کہ سنہ 1977ء والا سکرپٹ دہرایا جا رہا ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق قادریہ کے ارکان نے پی ٹی وی کی عمارت پر حملہ کیا اور ملازمین کی مارپیٹ کے بعد عمارت سے نکل آئے۔
ایسا ہی ایک سین پندرہ سال قبل بارہ اکتوبر کے روز بھی دیکھنے کو ملا تھا اور اسکے بعد مشرف نامی ایک صاحب ہم پر صادر کیے گئے تھے۔ اب کیا رائے ہے علماء کے بیچ اس مسئلے کے؟
لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں
پڑھیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔