قحط کے باعث تھر سے بڑے پیمانے پر ہجرت
تھرپارکر کے تعلقہ چھاچھڑو کی کچی سڑک کے کنارے بیٹھا اٹھائیس سالہ سکھو آٹھ ماہ کی ہجرت کے لیے تیار ہے۔
اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ موجود سکھو کا کہنا ہے"پہلے یہاں سے مرد کپاس کی فصل کی کٹائی کے موسم میں جون اور جولائی کے مہینوں میں دوسرے علاقوں سے جاتے تھے، مگر اب یہ زندہ رہنے کے لیے ہمارے پاس واحد راستہ رہ گیا ہے"۔
اس کے باعث مرد اپنے پورے خاندان کو سندھ کے مختلف تعلقوں اور دیہات میں منتقل کردیتے ہیں اور سکھو کا کہنا ہے"مجھے جس خیال سے سب سے زیادہ ڈر لگتا ہے وہ یہ ہے کہ میں اس وقت کیسے زندہ رہ سکوں گا جب میں یہاں نہ ہوں اور میرا خاندان مرجائے"۔
اس نے مزید کہا"کیونکہ میں اس حقیقت سے واقف ہوں میرے گاﺅں میں اب کھانے کے لیے کچھ بھی باقی نہیں بچا"۔
سکھو اور اس کا خاندان نہارو بھیل گاﺅں سے دو روز تک پیدل چل کر چھاچھڑو پہنچا اور اب وہ یہاں سے بھی جارہا ہے، اس کی والدہ بتاتی ہیں"میں نے پچاس برسوں کے دوران تین بار قحط سالی دیکھی مگر موجودہ حالات بدترین ہیں"۔
سکھو کی اہلیہ پلے ہی ضلع سانگھڑ کے ایک گاﺅں جاچکی ہے" میرے گاﺅں سے اب تک ساڑھے چار سو خاندان جاچکے ہیں اور اب وہاں صرف پچاس افراد ہی باقی بچے ہیں"۔
تھرپارکر حالیہ دنوں میں اس وقت خبروں کی سرخیوں کی زینت بنا جب صوبائی اسمبلی میں آخرکار قحط سالی پر ایک پالیسی کی منظوری دے دی گئی، جس کے اہم نکات کا اعلان کراچی میں وزیراطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
چھاچھڑو کے دیہی طبی مرکز کے میڈیکل سپرٹینڈنٹ کے ڈیٹا کے مطابق مارچ سے اب خطے میں سات ہلاکتیں ہوچکی ہیں جن میں بیشتر بچے ہیں، مگر این جی اوز کا کہنا ہے کہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
علی نواز ایک این جی او اویئر ان چھاچھڑو سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے" سرکاری ہسپتالوں میں صرف ان اموات کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے جو ان کی عمارت کے اندر ہوتی ہیں، وہ ان بچوں کا شمار نہیں کرتے جو بنیادی طبی مراکز اور ڈسپنسریز میں ہلاک ہوجاتے ہیں، ہمارے ڈیٹا کے مطابق مارچ سے اب تک 112 ہلاکتیں ہوچکی ہیں"۔
تھرپارکر کے چھ سب سے زیادہ متاثرہ تعلقوں میں سے ایک چھاچھڑو کی جانب جانے والی مرکزی شاہراہ پر سفر کے دوران قحط کی علامات کو نظرانداز کرنا بہت مشکل ہے، حکام کے مطابق کچھ عرصے قبل سے اب تک کافی بڑے یہاں سے بڑے پیمانے پر لوگوں نے ہجرت کی ہے۔
مرکزی شاہراہ پر خاندانوں کو عمرکوٹ اور مٹھی کی جانب جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، کچھ افراد پیدل جارہے ہوتے ہیں، جبکہ کچھ اپنے مویشیوں پر یا سوزوکی پک اپ پر سفر کرتے ہیں، جبکہ سڑک کے کنارے مردہ مویشیوں کا ڈھیر دیکھا جاسکتا ہے۔
تھرڈیپ کے سنیئر پروگرام منیجر ڈاکٹر اشوک بختانی کا کہنا ہے"بارش کے حوالے سے رواں سال کو بدترین قرار دیا جاسکتا ہے"۔
انہوں نے بتایا " یہ اب تک موسم انتہائی خشک رہا ہے یہاں تک کہ جو تھوڑی بہت بارش ہوئی اس کے بھی چھاچھڑو کے ارگرد مردہ فصلوں اور مویشیوں پر کوئی مثبت اثر مرتب نہیں ہوسکا"۔
ان کا کہنا تھا کہ رواں برس کے قحط نے انہیں 1987 کی قدرتی آفت کی یاد دلا دی ہے" اسے سیاہ قحظ کا نام دیا گیا تھا، اس وقت بھی ایسی ہی صورتحال تھی، ہر جگہ غذا کی کمی تھی، مویشی مر رہے تھے اور لوگ گھربار چھوڑ کر دیگر علاقوں کا رخ کررہے تھے، مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اسے زیادہ بڑا چیلنج نہیں سمجھتی"۔
اس بار ٹی وی چینیلز کی گاڑیاں چھاچھڑو کے دیہی طبی مرکز کے باہر نظر نہیں آرہیں، میڈیکل سپرٹینڈنٹ نے بارشوں کی کمی کو پہلے " میڈیا کی طرف سے بڑھا چڑھا کر بیان کرنا" قرار دیا، اور بعد ان کا کہنا تھا" یہ ایک حقیقت ہے جس نے ہمیں خوفزدہ کردیا ہے کیونکہ اس کے اثرات آنے والے مہینوں میں سامنے آئیں گے"۔
سیگریٹ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ" قحط اور کم خوراکی کا آپش میں کوئی تعلق نہیں، درحقیقت یہ این جی اوز کا اضافی آمدنی کے حصول اور دم توڑتے اخبارات کا اپنے قارئین میں اضافے کی حکمت عملی ہے، زمینی صورتحال مختلف ہے، رواں سال مارچ تک ہمارے ہسپتال میں صرف ایک موت رپورٹ ہوئی"۔
ان کے بقول دیگر مہینوں کا ڈیٹا مرتب کیا جارہا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ تھر میں بیشتر اموات علاقے میں موجود دیگر مسائل کے باعث ہوئیں"ان میں خواتین کا باربار حاملہ ہونا، قبل از وقت زچگی اور رہائشیوں کا مناسب غذا کا استعمال نہ کرنا ہے، جس کے نتیجے میں متعدد امراض پھوٹ پڑے، صرف قحط سالی ہی ہلاکتوں کی واحد وجہ نہیں"۔
این جی او اویئر ان چھاچھڑو کے عمرکوٹ میں نمائندے محمد صدیق اصرار کرتے ہیں موجودہ صورتحال ماضی کے مقابلے میں باکل مختلف ہے" ہم نے لاتعداد اجلاسوں میں صوبائی حکام کو تھر کے مسئلے سے آگاہ کرنے کی کوشش کی، چھاچھڑو اور حال میں تعلقہ بنائے گئے علاقے ڈھلی قحط سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، رواں برس 31 افراد خودکشی کرچکے ہیں، جس کی وجہ خوراک کی قلت اور مالی مشکلات تھیں"۔
ڈاکٹر اشوک تھر خاص طور پر چھاچھڑو کی موجود صورتحال پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر طویل المعیاد حل متعارف کرانے پر زور دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے" اگر بارش نہیں ہوگی تو فصلیں بھی نہیں اگ سکیں گی، اگر فصل فروخت نہیں ہوگی تو پھر ایک خاندان کس طرح اپنے مویشیوں کو خوراک فراہم کرسکے گا؟ یہاں تک کہ اگر مویشی قحط سے بچ بھی جائیں تو بھی وہ ایک کاشتکار کے لیے بے کار ہوجائیں گے کیونکہ ان میں ہل جوتنے کی طاقت نہیں رہے گی، موجودہ صورتحال اپنے آپ ٹھیک نہیں ہوسکتی"۔
انہوں نے مزید کہا" صورتحال ماضی کے مقابلے میں زیادہ تشویشناک ہے،گزشتہ سال کے اختتام کے بعد سے چھاچھڑو کی سترہ میں سے پانچ یونین کونسلوں میں بارش نہیں ہوئی تھی جس پر ماتم برپا ہوگیا تھا، اس بار چھاچھڑو کی کسی یونین کونسل میں بارش نہیں ہوئی اور اب تک کہیں کوئی شور ہوتا نظر نہیں آرہا"۔
ڈاکٹر اشوک کا کہنا تھا کہ طویل المعیاد بنیادوں پر زمینوں اور لوگوں کو ہونے والے نقصان کی تلافی ممکن نہیں" اس صورتحال میں ہمیں تبدیلی کے لیے کسان یا ہاری کی بات کو سننا چاہئے"۔