اجتماعی سیاسی قبر
گزشتہ تقریباً دو ہفتوں سے جاری افراتفری نے پورے ملک کو مفلوج بنایا ہوا ہے، ایک طرف انقلاب، دوسری طرف آزادی، اور تیسری طرف جمہوریت کے راگ الاپے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی گیدڑ بھپکیاں سننے میں آ رہی ہیں، تینوں گروپوں کی جانب سے خود کو صحیح ثابت کرنے کے لیے پارلیمنٹ، تقریر، خطابات، قرآن و حدیث کا استعمال اور منت سماجت و ترلوں سے ہوتے ہوئے دعوت ناموں تک کی جدوجہد سامنے آئی۔
عملی طور پر یکم اگست سے جاری اس افراتفری کا نتیجہ ملکی معیشت، عوامی نقل و حرکت، بنیادی حقوق کے استحصال کے روپ میں نکلا ہے۔ ملکی ادارے ایک بار پھر یرغمالی کی جانب بڑھنے لگے ہیں۔ ملک کو جہاں کئی ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، وہیں عوام میں بھی اس عمل کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
میرے خیال سے پاکستان میں پارلیمانی سیاست کرنے والی جماعتوں نے اپنی قبر کھودنے کا آغاز کر لیا ہے، سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ مارشل لا کے نفاذ پر اپنی افواج کو گھسیٹنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اگر ہم پاکستان میں نافذ ہونے والی مارشل لا کی طویل تاریخ کا جائزہ لیں تو ان کا سبب سیاسی جماعتیں ہی رہی ہیں۔ کسی نا کسی نابالغ تحریک کے بعد ہی ٹرپل ون بریگیڈ درالحکومت پہنچی اور مارشل لا کا نفاذ ہوا۔
آج پھر ملک میں ایک ایسی جدوجہد جاری ہے جس کو نابالغ یا غیر پلاننگ شدہ کہہ سکتے ہیں، جس کا نتیجہ عالمی حوالے سے انتہائی افسوسناک نکلا ہے۔ ایک لحاظ سے ہم دوبارہ آگے بڑھتے بڑھتے ریورس گیئر لگا چکے ہیں۔ جبکہ ساتھ ہی ساتھ عالمی برادری کو یہ میسج پہنچ چکا ہے کہ پاکستان کی سیاست کی لگام ابھی تک اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں ہے، جو کہ انتہائی افسوسناک پیغام ہے۔
ایک طرف کئی ممالک کی جانب سے اس قسم کی لا متناہی خبریں جریدوں میں جڑی جاتی ہیں کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ جمہوریت اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ایسی صورتحال میں حکومت کا فوج کو سیاسی معاملات میں شریک ہونے کی دعوت دینا قابل مذمت ہے۔ پاکستانی افواج کو سیاسی معاملات میں ڈال کر ایک بار پھر دشمنوں کو موقع فراہم کیا گیا ہے کہ وہ افواج پاکستان پر اپنے وار جاری رکھیں۔
دوسری جانب افواج پاکستان کو سیاسی معاملات میں شرکت کی دعوت دینا اس بات کا ثبوت فراہم کرنا ہے کے پاکستان کی سیاسی قیادت سیاسی معاملات سے نمٹنے کی طاقت نہیں رکھتی، ٹھیک اسی طرح جیسے انتظامی معاملات (زلزلے، سیلاب یا دیگر قدرتی آفات) میں ناکامی کی صورت میں۔ اس دعوت نامے سے جہاں عوام کی نظر میں سیاسی جماعتوں کی افادیت کو شدید دھچکا لگا ہے عین اسی طرح بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے بارے میں بھی کوئی اچھی رائے نہیں گئی اور کئی قسم کے ابہام پائے جانے لگے ہیں۔
مجھ سمیت پاکستان کا ذرا سا بھی شعور رکھنے والے لوگ اس شراکت کو کوئی مفید عمل نہیں سمجھتے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جس میں سب سے اہم وجہ یہ ہے کے پاکستان کے سیاسی مسائل کو حل کرنا حکومت و سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے اور تمام تر اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ہر ادارے کو اپنے فرائض خود انجام دینے چاہییں، یہاں تو ہر ناکامی کا حل جی ایچ کیو سے نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
میاں صاحب کی انتظامی ناکامیوں کا قصیدہ تو کئی حضرات پڑھ رہے ہیں، لیکن میاں صاحب نے خود کو ناکام ثابت کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ لیکن فوج کی شراکت کی ذمہ داری صرف ن لیگ پر نہیں ڈالی جا سکتی، اس میں عمران خان صاحب اور ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اپنا برابر بلکہ کافی حصہ ڈالا ہے۔
ایک لحاظ سے فرشتے اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ پاکستانی اداروں میں گزشتہ چند سال میں جو مداخلت کم ہوئی تھی اس عمل سے اس میں پھر تیزی آئے گی، جو طاقتیں گزشتہ کچھ عرصے سے ملکی معاملات میں دخل نہیں دے پا رہی تھیں یا انہیں ان معاملات سے الگ رکھا جا رہا تھا ایک بار پھر ان طاقتوں کو یہ موقع فراہم کیا گیا ہے کے وہ اپنا اثر و رسوخ اور گرفت مضبوط کریں۔ یہاں یہ کہاوت بلکل ٹھیک بیٹھتی ہے کہ سب نے مل کے "آ بیل مجھے مار" والے کلیے پر عملدرآمد کیا ہے۔
حقیقی جمہوریت کے دعویدار اور جمہوریت کی بقا کے بلند و بانگ نعرے لگانے والوں نے ایک بار پھر ملک کو نازک ترین دور میں دھکیل دیا ہے۔ کئی دنوں سے پاکستان کی عوام میں گردش کرنے والی افواہوں (کے یہ سکرپٹیڈ ہے )کو سچ ثابت کرنے میں خان اور قادری صاحب نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک فریق نے حکومت اور دوسرے فریقوں نے عزت بچانے کے لیے ملک کو بدنام کیا ہے اور رائے عامہ ہموار کرنے کے بجائے عوام کو ہر معاملے میں فوج کی جانب دیکھنے پر مجبور کیا ہے۔ یہ بلکل واضح ہو چکا ہے کہ اس سارے معاملے میں جمہوری و اخلاقی روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دونوں فریقوں نے ملک کی عزت و وقار کے بجائے اپنی انا کو بچانے کی کوشش کی ہے۔
پاکستانی سیاسی جماعتیں انا کی جنگ لڑتے لڑتے ملک و قوم کا ستیاناس کرنے پر تلی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مجھے تو یہ لگتا ہے جس طرح ان لوگوں نے اپنی انا کی خاطر جمہوری روایات و سیاسی حکمت عملی کی دھجیاں بکھیری ہیں اسی طرح یہ لوگ اپنی بقا کے لیے ملک کی بقا کو بھی خطرے میں ڈالتے ہوۓ ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ جمہوریت کے چیمپئن جمہوریت کو ایک لمحے تک گرم ہوا سے محفوظ نہیں رکھ سکے اور ہاتھ کھڑے کر دیے۔
اب یہ حقیقت کوئی راز نہیں رہی کہ پاکستان کے سیاستدان جمہوریت، مینڈیٹ اور عوام کی حکمرانی کا گن اپنی کرسیاں بچانے کے لیے ہی گاتے رہتے ہیں۔ کاش! کہ ہمیں اب یہ سننے کو نہ ملے کہ عوام اور ملک کے وسیح تر مفاد میں آرمی سے رجوع کیا گیا۔ دوسری جانب سے یہ کہ افواج پاکستان کی یقین دہانی پر ہم وزیر اعظم کا استعفیٰ لیے بغیر واپس لوٹ رہے ہیں۔
اب جب کہ پاکستان کے عسکری ادارے کو ان معاملات میں جھونک دیا گیا ہے تو پاکستانی سیاسی جماعتیں اسی طرح اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوے اپنی ناکامی کو تسلیم کریں اور جمہوریت کا راگ الاپنا بند کریں۔ اپنی عوام جن کو وہ اپنا سمجھتے تو نہیں ان سے معذرت کرتے ہوئے یہ فرما دیں کہ مملکت خداداد جمہوریت کی متحمل نہیں۔
لکھاری اینکر پرسن اور تجزیہ نگار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور ان دنوں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ twitter: @tanvirarain
لکھاری اینکر پرسن اور تجزیہ کار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں، اور ان دنوں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پرtanvirarain@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔