نقطہ نظر

تھری ڈی پرنٹنگ پر کچھ سوالات

کچھ کیسز ضرور ہوں گے جن میں تھری ڈی پرنٹنگ کو کاپی رائیٹ مواد کی غیر قانونی نقل تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

کچھ وقت پہلے تک تھری ڈی پرنٹنگ صرف صنعتی یا ریسرچ کے ماحول میں ٹیسٹنگ یا پروٹو ٹائپ بنانے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔

یہ جگہیں ماہرین کی نگرانی میں ہوتی ہیں، اور ان پر کنٹرول رکھا جاتا ہے، اس لیے یہ ٹیکنالوجی کسی کے لیے خطرے کا باعث نہیں تھی۔ ہم نے اپنے گزشتہ شماروں میں اس بات کی جانب اشارہ کیا تھا، کہ جب بھی تھری ڈی پرنٹنگ کو کمرشل کیا گیا، تو نہ صرف اس سے کاپی رائیٹ کے مسائل سامنے آئیں گے، بلکہ کچھ اخلاقی سوالات بھی جنم لیں گے۔


کمپنیوں کے نقطہ نظر سے


تھری ڈی پرنٹنگ میں استعمال ہونے والے پیٹنٹ، مشینری، اور طریقے کار سے عام لوگ ابھی واقفیت نہیں رکھتے، لیکن کاپی رائٹ کے حوالے سے دیکھا جائے، تو تھری ڈی پرنٹرز بنانے والی کمپنیاں اور ڈسٹری بیوٹرز کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کی دوسرے درجے کی ذمہ داری سے محفوظ ہیں۔

اس لیے، جب تک کہ کمپنیز یا ڈسٹری بیوٹرز خود صارفین کو کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کرنے پر نا ابھاریں، تب تک وہ صارف کی جانب سے کی گئی کسی بھی خلاف ورزی کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ ایسی خلاف ورزی کی صورت میں مکمّل ذمہ داری کمپنی کے بجائے اس صارف پر ہو گی۔ مثال کے طور پر 1983 میں سونی اور یونیورسل اسٹوڈیوز کے بیچ امریکی سپریم کورٹ میں لڑے گئے کیس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

یہ کیس ان تمام ٹیکنالوجیز پر نافذ العمل ہو سکتا ہے، جو ایسے آلات بنا سکتی ہیں، جن سے کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کی جا سکتی ہے۔


صارفین کے نقطہ نظر سے


صارفین پر تھری ڈی پرنٹنگ کی ذمہ داری بہت زیادہ ہو گی۔ کسی ویڈیو گیم یا فلم کی نقل تیار کرنے والے کو جیل میں 25 سال گزارنے پڑ سکتے ہیں، یا کچھ کیسز میں کئی لاکھ ڈالر جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بدقسمتی سے ایسے کیسز ضرور ہوں گے، جس میں تھری ڈی پرنٹنگ کو کاپی رائیٹ مواد کی غیر قانونی نقل تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، (ڈسٹری بیوشن ایک الگ جرم ہے)۔ اس حوالے سے ایک متنازعہ سوال موجود ہے، کہ قانون تھری ڈی پرنٹنگ سے اٹھنے والے مسائل سے کس طرح نمٹے گا۔

تھری ڈی پرنٹنگ اب لیبارٹریز سے گھروں تک تیزی سے منتقل ہورہی ہے، اور یہ بات بہت حد تک ممکن ہے، کہ یہ ٹیکنالوجی اپنی کم قیمت اور اپنی نقل خود تیار کر سکنے کی قابلیت کی وجہ سے اور زیادہ عام ہوتی جائے گی۔

اور ایسے وقت میں جب یہ ٹیکنالوجی گھروں میں اپنی جگہ بناتی جا رہی ہے، تو کاپی رائیٹ قوانین پر ایک جامع نظر ثانی بھی کی جا رہی ہے، (SOPA/PIPA/ACTA, et al)۔ اس سے پالیسی سازوں کے پاس ایک موقع ہے، کہ وہ ذاتی استعمال کے لیے نقل تیار کرنے کی قانونی حیثیت پر نظر ثانی کر سکیں۔ اس وقت ذاتی استعمال کے لیے نقل تیار کرنا "جائز استعمال" کے زمرے میں آتا ہے۔

اس کے علاوہ کاپی رائیٹ مواد کا کمرشل استعمال کیا ہے، اس کی مختلف تشریحات نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

قانون کی بہت ساری تشریحیں کی جا سکتی ہیں، جن کی وجہ سے آزادی اور جیل دونوں ممکن ہیں۔ "کمرشل" کی اس وسیع تشریح کی وجہ سے ذاتی استعمال کے لیے تیار کی جانے والی نقل کو بھی کمرشل کہا جا سکتا ہے، کیونکہ اگر ایک بھی نقل غیر قانونی طور پر تیار کی گئی ہے، تو کاپی رائیٹ کے مالک کو اس ایک نقل کی وجہ سے ایک سیل کا نقصان پہنچا ہے۔

مثال کے طور پر اگر ایک صارف آئرن مین کے ڈریس کا ڈیزائن انٹرنیٹ سے ڈائون لوڈ کر کے پرنٹ کر لے، تو وہ ایک ایسی چیز (مفت) حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، جو مارول کومیکس فروخت کرتی ہے۔ اس طرح مارول کو ایک سیل کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ لیکن دوسری جانب پرستاروں کی جانب سے بنائے گئے آرٹ کو قانونی پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ پرستار کی حیثیت میں آپ کچھ بھی بنا سکتے ہیں، جب تک کہ آپ اسے بیچیں نہیں۔ لیکن پرانی مثالوں کو دیکھا جائے، تو یہ بات واضح ہے کہ کمپنیز اس حوالے سے، کہ کیا چیز فین آرٹ ہے، اور کیا چیز نقل، کسی ضابطے کی پابندی نہیں کرتیں۔

اگر کوئی شخص پرنٹ کر کے نقل تیار کر سکتا ہے، تو وہ اسے اصلی قرار دے کر بیچ بھی سکتا ہے، اور اس کے غیر قانونی ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔


حفاظتی نقطہ نظر سے


گزشتہ ماہ یونیورسٹی آف ٹیکساس میں قانون کے طالب علم کوڈی ولسن نے تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے تیار کی گئی بندوق ایک فائرنگ رینج میں ٹیسٹ کی۔ پہلا پروٹوٹائپ 6 گولیاں داغنے تک ٹھیک چلا۔ ولسن نے بندوق کے ڈیزائنز کو انٹرنیٹ پر مفت ڈائون لوڈ کے لیے دستیاب کرا رکھا تھا، لیکن پھر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے انھیں سیکورٹی وجوہات کی بنا پر ہٹا دیا۔

ماہرین کی رائے یہ ہے، کہ جدید پرنٹرز جو لوگوں کی پہنچ میں ہیں ( جیسے دی کیوب وغیرہ)، وہ نقصاندہ اسلحہ بنانے کے لیے استعمال نہیں کیے جا سکتے۔ کیونکہ اسلحہ سازی کے لیے زیادہ پیچیدہ مشینری کی ضرورت ہوتی ہے، جو گھریلو استعمال کے تھری ڈی پرنٹر میں موجود نہیں ہوتی۔

ولسن نے جو پلاسٹک کی بندوق بنائی تھی، وہ ای بے (eBay) سے آٹھ ہزار ڈالر میں خریدے گئے تھری ڈی پرنٹر سے تیار کی گئی تھی، جبکہ فائرنگ پن کو دھات سے بنایا گیا تھا۔ یہ کہنا کافی ہے کہ ڈیسک ٹاپ تھری ڈی پرنٹر بندوق جیسی پیچیدہ چیز کی ہو بہو نقل تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ اس لیے بنایا ہی نہیں گیا ہے۔

اس کے علاوہ کیوبی فائی کمپنی نے اپنے پرنٹر دی کیوب کو ایک ایسی سروس کے ساتھ منسلک کر دیا ہے، جس کے ذریعے کوئی بھی چیز پرنٹ کرنے سے پہلے کیوب کے سرور سے اجازت درکار ہوگی، جس کی وجہ سے بندوق جیسی کوئی بھی چیز پرنٹ نہیں کی جا سکے گی۔

بھلے ہی اس سے پرائویسی پر سوالات اٹھتے ہوں، پر اگر سیکورٹی وجوہات کو دیکھا جائے، تو یہ ایک اچھی چیز ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا یہ سروس بندوق جیسی تمام چیزوں کی پرنٹنگ کا پتا لگا کر روک دے گی یا نہیں، لیکن پھر بھی یہ درست سمت میں ایک قدم ہے۔

اس ٹیکنالوجی کی مدد سے کمپنیز اپنے مواد کی غیر قانونی نقل تیار کرنے پر پابندی لگا سکتی ہیں، لیکن ہو سکتا ہے کہ کچھ ہی وقت میں ایسا کوڈ یا کریک تیار کر لیا جائے، جس سے سرور کو چکمہ دینا ممکن ہوجائے۔

خوش قسمتی سے ایسا کوئی سافٹ ویئر کریک وغیرہ موجود نہیں، جو صنعتی طور پر تیار کی گئی پروڈکٹ کی متبادل نقل تیار کر سکے۔ کچھ ملکوں میں جہاں اسلحہ رکھنے کے حوالے سے قوانین نرم ہیں، وہاں بندوق پرنٹ کرنے سے زیادہ آسان اصلی بندوق خرید لینا ہو گا۔


نتیجہ


کیونکہ یہ ایک نئی ٹیکنالوجی ہے، اس لیے اس حوالے سے قوانین ابھی واضح نہیں ہیں۔ جب تک کہ ٹیکنالوجی پوری طرح عام ہو کر کمپنیز کے لیے کاپی رائیٹ مسائل نہیں کھڑے کردے گی، تب تک اس حوالے سے صورتحال غیر واضح ہی رہے گی۔

سافٹ ویئر انڈسٹری کے لیے قانون سازی میں کئی عشروں کا وقت لگا، اور اب بھی پورا دنیا میں ان قوانین پر نظر ثانی جاری ہے۔ اسی طرح تھری ڈی پرنٹرز کے لیے شاید مکمّل طور پر ایک نئی قانون سازی کی ضرورت پڑے گی۔

انگلش میں پڑھیں۔

اسپائڈر میگزین
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔