پاکستان کی نوجوان نسل اور غیرت بریگیڈ
اسلام آباد میں ’انقلاب‘ اور ’آزادی‘ کے نام پر دھرنا جاری و ساری ہے۔ متوالے آئے روز اپنی اپنی پٹاریوں سے نئے سانپ نکالنے کی ناکام سی سعی کرتے ہیں، دھواں دار تقاریر کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے اور رات کے آخری پہر یہ محفل ہاؤ ہو اپنے عارضی اختتام کو پہنچتی ہے۔
’تیسری قوت‘ کی جانب سے متوقع کمک ابھی تک میدان جنگ تک نہیں پہنچی البتہ افضل خان اور ان جیسے کھوٹے سِکّوں کی شکل میں رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش کی جا چکی ہے۔
عمران خان وزارت عظمیٰ کی خواہش کا تعاقب کرتے کرتے حجلہء عروسی کی چاہ میں مبتلا ہو ئے تو قادری صاحب نے غسل کی ناکافی سہولیات کا ڈھنڈورا پیٹا۔
جمہوریت سے کوفت رکھنے والے حلقوں کی بچھائی اس بساط کے مہرے، مسلسل احتجاج اور حکومت کی سرد مہری سے بیزار ہوئے جاتے ہیں۔ اس صورت حال میں جمہوری جماعتوں کی جانب سے مہمل سا رد عمل دیکھنے کو ملا۔ پچھلے سال فروری میں قادری صاحب نے اسلام آباد میں ڈیرہ ڈالا اور جمہوری گاڑی کو پٹری سے اتارنے کا نعرہ ء مستانہ بلند کیا تو لاہور میں سیاسی جماعتوں نے مشترکہ اعلانیہ جاری کیا جس میں اس حرکت کی شدید مزمت کی گئی اور جمہوری نظام کے دفاع کا اعادہ کیا گیا۔
موجودہ حالات میں البتہ ایسی کارروائی دیکھنے کو نہیں ملی۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالیں اور دھرنے میں ہونے والی ’فحاشی‘ اور ’رقص و سرود کی محفلوں‘ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
میڈیا میں موجود غیرت کے ٹھیکے داروں نے بھی یہی موقف اپنایا۔ جنگ اخبار کے ایک کالم نویس نے تحریک انصاف کی خواتین کارکنان کی ’مشتبہ کارروائیوں‘ پر اپنی گھٹیا سوچ کا نمونہ پیش کیا۔
عدالت عظمیٰ میں ان دھرنوں میں ہونے والے رقص کو معاشرے کیلئے تخریب کن قرار دیے جانے کے حوالے سے اپیل جمع کروائی جا چکی ہے۔ مسلم لیگ نواز، جمیعت علمائے اسلام اور اہل سنت و الجماعت کی ریلیوں میں عمران خان، یہودی لابی اور فحاشی کو خوب کوسا گیا۔
عمران خان پر یہودی لابی کی حمایت کے الزامات نئے نہیں بلکہ 1997ء کے انتخابات سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مطالبات اور طریقہ کار سے لاکھ اختلاف کے باوجود ہم اس بات سے قطعی متفق نہیں کہ فحاشی کو وجہء اعتراض بنایا جائے۔ آئیے پہلے اس بات کا تعین تو کر لیں کہ یہ ’فحاشی‘ ہوتی کیا ہے؟
بزرگوں کی رائے کے مطابق یہ فحاشی وہاشی کوئی چیز نہیں ہوتی، یہ محض ایک دماغی خلل ہے جو پاکستان جیسے تنگ نظر معاشروں میں ہی پایا جاتا ہے اور اس بیماری کا شکار ذہن عورت کو گھر کی دہلیز سے باہر دیکھ کر شدید صدمے کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ جب ایسے تنگ نظر لوگ دوسروں کے لباس یا حرکات کو اپنی خود ساختہ اخلاقیات سے منفرد پاتے ہیں تو فوری طور پر 'فحاشی' کا جھنڈا بلند کر دیتے ہیں۔
مہذب معاشروں کے برعکس ہمارے ہاں Personal Space کا نظریہ ہی موجود نہیں۔ ہمارے معاشرے میں بیشتر افراد ’فحاشی‘ کے مرتکب افراد کے مدعی، گواہ اور منصف بننے کو ہر دم تیار بیٹھے رہتے ہیں۔
اس ذہنی بیماری کی موجودگی کی ایک بڑی وجہ تفریحی مقامات کی عدم دستیابی اور بیرون ملک سفر سے اجتناب ہے۔ تفریحی مقامات کی عدم موجودگی کے باعث معاشرے میں جمود اور منفی سوچ پرورش پاتی ہے۔
بیرون ملک سفر کے بغیر دنیا کے مختلف معاشروں اور مختلف اقدار سے تعارف ناممکن ہے، کیونکہ ہمارے ملک میں تو غیر ملکی سیاح اب ناپید ہو چکے ہیں۔ ان دھرنوں میں ہر رات ہونے والا ہلہ گلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت کو عوام کیلئے تفریح کے مواقع پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اگر سیاسی بکواس سے تنگ آئے نوجوان موسیقی کی تان پر رقص کرنا چاہتے ہیں تو اخلاقی پہرے داروں کو کیا تکلیف ہے؟
خواتین، جو اس ملک کی آبادی کا بڑا حصہ ہیں، اگر سیاسی عمل میں شریک ہونا چاہتی ہیں تو ملّا کے تن بدن میں آگ کیوں لگ جاتی ہے؟
تحریک انصاف کی کارکنان اپنے فارغ وقت میں جو بھی کرتی ہیں، کسی کالم نگار یا اینکر کو یہ حق کس نے دیا کہ ان پر عصمت فروشی کے الزام عائد کرے؟
ہماری ناقص رائے میں اس ملک کو سیاسی سے زیادہ 'سماجی تبدیلی' کی ضرورت ہے۔ یہ تبدیلی ذہنیت کی فرسودگی اور تنگ نظری کے خلاف ہونی چاہئے۔
فی الحال اس نیک کام کا بیڑہ کوئی سیاسی جماعت اٹھانے کو تیار نہیں البتہ تحریک انصاف کو اس دھرنے کے دوران یہ سبق تو سیکھ ہی لینا چاہئے۔
امید ہے خان صاحب اخلاقی اور ذہنی پستی کے اس گمبھیر مسئلے پر خاموش رہنے کے بجاۓ پاکستانی معاشرے کی منافقانہ، عورت دشمن، بیمار ذہنیت کا علاج کرنے کے لئے کوئی عملی تحریک شروع کریں گے کہ 'نظام میں تبدیلی' کی اوّلین شرط قومی ذہنیت میں 'تبدیلی' ہے.
لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں
پڑھیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔