پاکستان

بے گھر افراد 'آزادی' اور 'انقلاب' مارچ سے مایوس

عمران خان کو اپنے نام سے ' خان' ہٹا دینا چاہئے کیونکہ وہ پختونوں کی نمائندگی کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔

سبزیوں میں کدو کو زیادہ اہمیت نہیں جاتی خاص طور پر کسی مہمان کی تواضع کے لیے میزبان کوشش کرتا ہے کہ اسے کھانے کا حصہ نہ بنائے، اور جب یہ کسی فرد کے نام کے طور پر استعمال ہوتا ہے تو اس میں یہ مفہوم چھپا ہوتا ہے کہ اس میں دانشمندی کی کمی ہے، پختونوں میں اس اصطلاح کا استعمال نیا نہیں، درحقیقت وہ اسے کسی کا مذاق اڑانے یا احمق قرار دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

تو جب شمالی وزیرستان ایجنسی کے ایک بے گھر بزرگ نے اس اصطلاح کا استعمال اسلام آباد میں موجود آزادی اور انقلاب مارچ میں شریک سیاستدانوں کے لیے کیا تو بظاہر یہ بہت زیادہ سخت نہیں لگا، مگر پھر سیاسی انداز میں اس بزرگ نے وضاحت پیش کی۔

شمالی وزیرستان ایجنسی کے بے گھر آبادی کی قومی کمیٹی کے سربراہ نثارعلی خان کا بنوں پریس کلب کے سامنے بے گھر افراد سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا" انقلاب کے حقیقی معنوں سے ناواقف دماغ درحقیقت کدو ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "اسلام آباد میں عمران خان اور طاہر القادری اپنا ڈرامہ کررہے ہیں اور ادھر بے گھر افراد کی دیکھ بھال کے لیے تعینات کیے گئے عہدیدار ہمارا خون چوس رہے ہیں ، ان کی کرپشن ہماری خوراک کو چوری کررہی ہے، ہمارے پاس انہیں دینے کے لیے کچھ نہیں، عمران خان کو اپنے نام سے ' خان' ہٹا دینا چاہئے کیونکہ وہ پختونوں کی نمائندگی کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں"۔

اتوار کو نثار علی خان چہار بجلی چوک میں وزیر اور دوار قبائل کے بے گھر قبائلی بزرگان کے استقبال کے لیے کھڑے تھے، قومی کمیٹی کا ایک چھوٹے سے کمرے پر مشتمل دفتر ایک ہوٹل کے تہہ خانے میں ہے۔

ایک نوجوان باورچی پسینے میں شرابور ایک سلینڈر میں لگے تندور میں روٹیاں لگانے میں مصروف تھا، یہ نرم روٹی مقامی پکوان کے لیے بہترین ثابت ہوتی ہے، اور جب میزبان یہ کسی کے سامنے رکھتے ہیں تو مہمانوں کے لیے خود کو روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔

یہ قبائلی بزرگ یہاں پیر کو پشاور پریس کلب میں اپنے احتجاج کے منصوبے پر بات چیت کے لیے جمع ہوئے، اور یہ سب آئی ڈی پیز کو درپیش مسائل پر بات چیت کررہے تھے، جن میں شمالی وزیرستان میں ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر حاجی امین الرحمان بھی شامل تھے۔

جب ہم نے ان سے بات کی تو ان کی باتیں سن کر لگا کہ ان کی زبان صحافیوں کے لیے تیار کی گئی ہے، اور انہوں نے ہی اردو پریس کے لیے ایک پریس ریلیز پڑھ کر بھی سنائی۔

وہ اور دیگر بزرگ زیادہ مہذب اور عام لوگوں کے خیالات سے بالکل مختلف نظر آرہے تھے، وہ بہادر شاہ ظفر اور پطرس بخاری کے اقوام کو اپنی بات چیت میں استعمال کررہے تھے۔

کسی ایسے شخص جو قبائلی افراد کے بارے میں مخصوص خیالات رکھتا ہو وہ ان کے اندرونی حلقے میں آکر اپنے تصورات کو بدلنے پر مجبور ہوجائے گا، حالانکہ فاٹا کے رہائشی پاکستان کے باقی حصوں سے الگ تھلگ ہیں، جب ہم نے یہ بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ہماری ثقافت، تعلیم اور معاشرہ دانستہ طور پر مسخ کرکے پیش کیا گیا تاکہ ریاستی ' جہادی' ایجنڈے کو پیش کیا جاسکے۔

اس کے بعد گفتگو کا رخ ایک بار پھر اسلام آباد میں جاری احتجاج کی جانب مڑ گیا، حاجی امین الرحمان نے کہا" یہ میڈیا کی توجہ آئی ڈی پیز سے ہٹانے کی سازش ہے، سیاستدان بے گھر افراد کے ساتھ تصاویر میں مگرمچھ کے آنسو بہا کر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرتے ہیں، مگر جب ہمارے حقیقی مسائل کی بات آتی ہے تو وہ اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں"۔

مگر آخر وہ لوگ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ یہ احتجاجی مارچز شمالی وزیرستان آپریشن اور بے گھر افراد سے توجہ ہٹانے کی دانستہ کوشش ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے شمالی وزیرستان ایک مصنف ہمایوں دوار کہتے ہیں" کیونکہ مئی 2013 سے جون 2014 کے درمیان عمران خان کی جانب سے حکومت پر دھاندلی کے الزامات پر کوئی مارچ نہیں ہوا،مگر فوجی آپریشن کے بعد ایسا ہورہا ہے، ہم عمران خان اور طاہر القادری کے خالف اس لیے احتجاج کررہے ہیں کیونکہ اگر شمالی وزیرستان کو دہشتگردوں سے پاک کرنے کے لیے آپریشن شروع کیا تو اس کے منطقی انجام تک احتجاج نہ کرنا قومی ترجیح ہونا چاہئے تھی"۔

ان بزرگوں کا کہنا ہے کہ دس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں، وہ اپنے علاقوں کو کلیئر دیکھا چاہتے ہیں تاکہ گھروں کو واپس جاسکے، ہمایوں دوار کا کہنا تھا" مگر آپریشن اور ممکنہ واپسی سے توجہ ہٹ چکی ہے، ہمیں مشکلات اور تذلیل کا سامنا ہے مگر دارالحکومت میں جاری ڈرامہ ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے"۔

قبائلی بزرگوں نے بتایا کہ ان کی امداد کرنے والی این جی اوز نے اپنے دفاتر بند کردیئے ہیں کیونکہ سیاسی بے یقینی اور راستوں کی بندش کے باعث فنڈز اور سپلائیز روک گئی ہیں، جبکہ انتظامیہ کی توجہ بھی دوسری جانب مرکوز ہے۔

ایک قبائلی بزرگ حاجی سعید نے کہا" عمران خان نے یہاں ڈرون حملوں کے خلاف مارچ کیا تھا مگر اب ہم فوجی آپریشن کے باعث بے گھر ہوگئے ہیں تو وہ غائب ہوچکے ہیں"۔

حاجی سعید اور دیگر کے خیال میں مسلم لیگ نواز کی حکومت بھی زیادہ اچھی نہیں کیونکہ اس نے فوجی آپریشن کی منظوری دی۔

یہ بات چیت زندہ افراد سے میتوں کی تدفین کے مسائل کی جانب چلی گئی، ایک منٹ پہلے ہم مقامی اسکولوں میں بچوں کی تعلیم، خواتین میں امداد کی تقسیم کے علیحدہ مقامات اور اسکولوں میں بے گھر افراد کے لیے جگہوں پر بات کررہے تھے مگر پھر حاجی امین نے کہا" زندوں کی بات چھوڑیں بنوں میں میتوں کے لیے جگہ کی بھی تنگی ہوگئی ہے، ہمارے پاس تدفین کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں"۔

انہوں نے مزید کہا" ہم اپنے پیاروں کی میتوں کو بطور امانت دفن کررہے ہیں، بعد میں کسی مناسب وقت پر جب ہم اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں تو ان کی اپنے آبائی قبرستانوں میں دوبارہ تدفین کریں گے"۔

اس موقع پر انہوں نے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کا شعربھی سنایا جو رنگون میں جلاوطنی کے دوران انتقال کرگئے تھے" کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے، دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں"۔