اسلام آباد دھرنوں سے معیشت کو 800 ارب کا نقصان
اسلام آباد میں جاری سیاسی ڈرامے کی ٹی وی چینیلز اور سوشل میڈیا پر مسلسل کوریج سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے مظاہرے ایسی عوامی جانچ پڑتال کی زد میں آگئے ہیں جو اس سے پہلے ملکی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔
یہ احتجاج جو کبھی کسی میلے کی طرح لگتا ہے جہاں موسیقی اور تفریحی سرگرمیاں بھی جاری ہیں، ایک مہنگی مشق لگتا ہے۔
اس سیاسی تعطل نے اب تک ملک کو مختصر مدت میں آٹھ سو ارب روپے کا نقصان پہنچا دیا ہے۔
ان مظاہروں پر کیے جانے والے اخراجات ایک تخمینے کے مطابق پچاس کروڑ کے قریب ہے، جب کہ ان کے اثرات کے نتیجے میں عام کاروباری سرگرمیاں سست روسی کا شکار ہوگئی ہیں جبکہ مستقبل میں سرمایہ کاری پر اس کے اثرات کافی وسیع اور اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
اب تک سول نافرمانی کی کال پر عوامی ردعمل کچھ خاص سامنے نہیں آیا، کچھ ماہرین کے مطابق اس کے صحیح اثرات کا اندازہ اس وقت ہوگا جب حکومت اور عوام کے درمیان دوری سامنے آئے گی۔
ایک ماہر کا کہنا ہے" دیگر خسارے(تجارتی و رواں کھاتوں) اعتماد میں کمی کو ظاہر کرتے ہیں، حکومتی کی ساکھ میں کمی ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح میں کمی کی عکاسی بھی کرتی ہے"۔
وزیر تجارت خرم دستگیر خان نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا" معیشت اور پاکستان کے چہرے کو پہنچنے والے نقصانات کی تلافی ممکن نہیں، ہم نے ایک سال محنت کرکے جو کچھ حاصل کیا تھا وہ سب کچھ دنوں میں کھو دیا"۔
اسلام آباد سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر اس بحران کے جلد حل ہونے کے حوالے سے زیادہ پرامید نہیں لگتے تھے۔
انہوں نے موڈیز اور ایسی ہی ریٹنگ کرنے والی کمپنیوں کے تجزیوں کی جانب توجہ دلائی جس میں پاکستان کی ریٹنگ منفی سے مثبت کی گئی تھی اور کہا" اقتصادی استحکام کا تعلق ملک میں جمہوری استحکام سے ہوتا ہے"۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ احتجاج کے اثرات کے بارے میں جاننے کے لیے اب تک سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں، تاہم انہوں نے وعدہ کیا کہ ان کی وزارت اس حوالے سے کام جلد شروع کردے گی" ہم تفصیلی رپورٹ پر کام کریں گے، تاہم میرے لیے ابھی یہ بتانا مشکل ہے کہ معیشت کو کتنا نقصان ہوچکا ہے"۔
پنجاب کے کچھ کاروباری اداروں کا اصرار ہے کہ یہ تحریک جمہوریت کے لیے کوئی خطرہ نہیں بلکہ اس کا مقصد جمہوری اقدار کو مضبوط بنانا ہے، نواز شریف اور ان کی حکومت کے ناقدین میں شامل یہ ادارے اصرار کرتے ہیں کہ شریف برادران کو جھٹکا دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ کاروباری طبقے کو زیادہ سہولیات فراہم کرسکیں۔
ایک بڑے بزنس مین کے مطابق " جب پارلیمنٹ ربڑ سٹمپ بن جائے تو عوامی طاقت سے قیادت کو جگانا ضرورت ہوجاتا ہے، یہ سیاسی بحران قوم کو ایک بار پھر فوجی اقتدار کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے ضروری تھا"۔
او آئی سی سی آئی کے ایک سابق صدر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا" پائپ لائن میں موجود تمام سرمایہ کاری کم از کم آئندہ چھ ماہ تک رکی رہے گی کیونکہ سرمایہ کاری تمام آپشنز کا جائزہ لینے کے بعد ہی فیصلہ کریں گے"۔
امریکن بزنس کونسل آف پاکستان کے سابق صدر ہمایوں بشیر کا کہنا تھا" ہم طویل المعیاد مثبت نتائج کے لیے پرامید ہیں، مگر اس کے مختصر المدت مضر نقصانات بھی مرتب ہوں گے، کیونکہ غیرملکی کاروباری افراد نے پاکستان کے لیے اپنے سفری منصوبوں کو منسوخ کردیا ہے"۔
ایک سنیئر ماہر معیشت نے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے کہا" ان کے احتجاج کے اثرات قرضوں کی شرح، ٹیکس ٹو جی ڈی پی اور عوامی قرضوں وغیرہ پر پڑیں گے، جبکہ برآمدات اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر سے حاصل ہونے زرمبادلہ کی شرح بھی کم ہوجائے گی"۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی اقتصادی کے ایک رکن نے کہا" اگر حالیہ بحران پنجاب کے سویلین اعلیٰ طبقے میں دراڑ ڈالتا ہے تو یہ رجحان فائدہ مند ہوگا"۔
اس نے مزید کہا" یہ امر خوشگوار حیرت کا باعث ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں نظام کو ڈی ریل ہونے کی کسی بھی کوشش کے لیے اکھٹی ہوگئی ہیں، سول سوسائٹی، وکلاءاور صحافتی تنظیمیں پارلیمنٹ کی حمایت کے لیے باہر آئی ہیں، ہماری خواہش اور توقع ہے کہ اس سے بہتر شعور پیدا ہوگا اور اس مسئلے کو مذاکرات کی میز پر حل کرلیا جائے گا اور گلیوں میں کوئی تشدد نہیں ہوگا"۔
ایک تاجر رہنما کے مطابق" عدم استحکام کے خدشات نے سرمایہ کاری کو نقصان پہنچایا ہے، کیونکہ سرمایہ کار دیگر عوامل کا جائزہ لے رہے ہیں، غیریقینی کی کیفیت نے ملک کو سرمایہ کاروں کی فہرست نکال دیا ہے"۔
میڈیا رپورٹس میں ریلیوں کے اخراجات پر ابھی کوئی توجہ نہیں دی گئی تاہم اسلام آباد میں اس وقت اوسطاً مظاہروں مٰں شریک ہر فرد پر روزانہ کے پانچ سو روپے خرچ ہورہے ہیں، جن میں ہر چیز جیسے خوراک، ٹرانسپورٹ، لائٹ، ساﺅنڈ سسٹ، کرینز، جھنڈے، بینرز، کرسیاں اور دیگر شامل ہیں۔
اسی طرح آٹھ سو کے لگ بھگ بسوں اور ویگنوں پر روز کرائے کی مد میں اوسطاً دس ہزار روپے خرچ ہورہے ہیں جو کہ پندرہ اگست سے اسلام آباد میں پارک ہیں۔
ایک تخمینے کے مطابق روزانہ دو سو دیگیں جن میں سے ہر ایک پانچ ہزار کی پڑتی ہے، دن میں تین بار دھرنوں میں پہنچائی جاتی ہیں، کنٹینرز کو ہٹانے کے لیے دو کرینیں بھی وہاں موجود ہیں، جبکہ جنریٹرز اور فلڈ لائٹس کی تنصیب کے لیے درجن بھر ٹرک بھی ہیں، چوبیس موبائل ٹوائلٹس کے لیے دو کنٹینرز موجود ہیں، جبکہ رہنماﺅں کے لیے اے سی والے لگژری کنٹینرز اور کچھ کنٹینرز اسٹیج کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔
دستیاب معلومات کے مطابق دارالحکومت کے تمام فور اور فائیو اسٹار ہوٹلز بک ہوچکے ہیں، ریڑھی والے کھانے پینے کی اشیاءاور کولڈ ڈرنکس وغیرہ مظاہرین کو فروخت کرکے اپنا کاروبار چمکا رہے ہیں۔