لائف اسٹائل

سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے

احمد فراز کو ہم سے بچھڑے 6 سال بیت گئے لیکن اپنی مسحور کن شاعری کی بدولت پرستاروں کے دلوں پر آج بھی راج کر رہے ہیں۔

کبھی ٹین ایجرز کا شاعر تو کبھی حسن و عشق کا مدح سرا، کہیں انقلاب کا منتظر تو کبھی ماضی کا نوحہ گر، کہیں انا سے اکڑا سر پھرا عاشق تو کہیں سب کچھ بھلا کر دوستی کے لیے پہل کرتا احمد فراز۔۔۔ جنہیں آج دنیا کو چھوڑے چھ سال بِیت گئے مگر اُردو ادب میں وہ زندہ اور محفلوں میں اُن کا تذکرہ اب بھی جاری ہے۔

فراز نے اپنی زندگی میں کہا تھا 'سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے' مگر جس طرح ان کا تذکرہ ادب کی محفلوں میں ہے، اسے دیکھ کر یہی کہا جا سکتا کہ سلسلہ ٹوٹا نہیں تجھ سے تعلق کا فراز۔

سن ساٹھ کی دہائی میں پہلے مجموعہِ شاعری سے اُردو ادب کے اُفق پر جگمگانے والا یہ ستارہ چھ برس پہلے آج ہی کے دن فلکِ ادب پر ٹوٹا تھا لیکن سچ یہ ہے کہ ٹوٹے تارے کی روشن کرنیں اب بھی باقی ہیں۔

سید احمد شاہ جنہیں دنیا احمد فراز کے نام سے جانتی ہے چودہ جنوری 1931 کو صوبۂ سرحد کے شہر کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔

کوہاٹ کے معروف صوفی بزرگ حاجی بہادر کے گھرانے کے چشم و چراغ سید احمد شاہ نے پشاور میں ایڈورڈ کالج اور پشاور یونیورسٹی میں تعلیم حاصلی کی، دوران طالب علمی سید احمد شاہ سے وہ احمد فراز تک کا سفر طے کر چکے تھے اور ان کا پہلا شعری مجموعہ 'تنہا تنہا' شائع ہوا تو وہ بی اے میں تھے۔

شعری سفر میں غالب اور ترقی پسند ادب میں فیض احمد فیض اور علی سردار جعفری سے متاثر فراز نے عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان میں اسکرپٹ رائٹر کے طور پرکیا اور پھر پشاور یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔

جنرل ضیاءالحق کے دور میں آمریت کے خلاف لب کشائی کی پاداش میں چھ برس لندن، کینیڈا اور دیگر یورپی ممالک کی جلا وطنی میں گزارنے والے احمد فراز کو 2004 میں ان کی ادبی خدمات پر ہلال امتیاز سے نوازا گیا تاہم انہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات پر احتجاجاً یہ اعزاز واپس کر دیا اور 2007 میں وکلاء کی تحریک میں عملاً شمولیت اختیار کی۔

احمد فراز کو 1950 سے 2008 تک چھ دہائیوں پر مبنی اپنی ادبی زندگی میں دنیا بھر میں شہرتوں اور محبتوں کے علاوہ قومی سطح کے نو اعلیٰ اعزازات اور بین الاقوامی سطح کے چھ ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔

حسن و عشق کے شاعر فراز کی شاعری کو جہاں ہر عمر کے شائقینِ ادب میں بے پناہ مقبولیت ملی وہیں برِ صغیر کے مشہور غزل گائیکوں نے ان کی غزلیں گا کر عام سامعین میں بھی مقبول بنا دیا۔

شہنشاہِ موسیقی مرحوم مہدی حسن نے فراز کی کئی غزلوں کو اپنی آواز کا سحر عطا کیا مگر جب انہوں نے 'رنجش ہی سہی دل ہی دکھانا کے لیے آ' پیش کی تو پہلا مصرعہ بہت جلد عوامی حلقوں میں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرگیا، آج بھی اس کی یہ شہرت برقرار ہے۔

پڑوسی ملک ہندوستان میں بھی احمد فراز کی شاعری کو شوق سے پڑھا اور سنا جاتا ہے، ہندوستانی موسیقی کی سدا بہار آواز لتا منگیشکر بھی ان کی کئی غزلیں اور گیت گا چکی ہیں۔ فراز کی ایک غزل 'آنکھ سے دور نہ ہو، دل سے اتر جائے گا' جب لتا جی نے گائی تو اسے بہت پذیرائی ملی، جگجیت سنگھ نے بھی فراز کی غزلیں گائی ہیں۔

پاکستان کی ملکۂ ترنم میڈم نور جہاں نے ان کی کئی غزلوں کو اپنی آواز عطا کی اور یوں فراز کی غزلیں ان لوگوں تک بھی پہنچ پائیں جو پڑھنا تو نہیں جانتے تھے مگر لازوال آوازوں کی سنگت سے وہ بھی احمد فراز کے مداح ہوئے۔

میڈم نور جہاں کی گائی فراز کی غزل 'سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے' ہند و پاک کے شائقینِ غزل میں بہت مقبول غزل خیال کی جاتی ہے۔

فراز کے اب تک 14 مجموعہ کلام شائع ہو چکے ہیں، جن میں سے پس انداز موسم، سب آوازیں میری ہیں، خواب گل پریشان ہے، غزل بہانہ کروں اور جاناں جاناں قابل ذکر ہیں۔

احمد فراز کا موازنہ شاعرِ مشرق علامہ اقبال اور فیض احمد فیض سے بھی کیا جاتا رہا ہے، ان کی شاعری کے انگریزی، فرانسیسی، ہندی، یوگوسلاوی، روسی، جرمن اور پنجابی میں تراجم ہو چکے ہیں۔

احمد فراز 25 اگست 2008 کو علالت کے باعث اسلام آباد میں انتقال کر گئے، آج وہ ہمارے ساتھ موجود نہیں لیکن ان کی شاعری، ان کا کلام اور ان کے الفاظ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔