'ہمارے معاشرے میں تشدد کو سماجی منظوری حاصل ہے'
کراچی: توہین رسالت کے قانون کی موجودگی، کیا ہمارے ملک اور اسلام کے لیے فائدہ مند ہے؟
ہمارے معاشرے میں فرقہ واریت کیوں بڑھتی جارہی ہے؟
کیا یہ ریاست پنجابی ریاست ہے؟
اور وہ کون سے عناصر ہیں، جن سے ہمارے عدم برداشت کے اس رویے کی تشکیل ہوئی ہے؟
ان تنقیدی سوالات کے جوابات کراچی یونیورسٹی کی فیکلٹی آف آرٹس کے زیراہتمام ایک کانفرنس کے مقررین نے تلاش کیے۔ جمعہ کو منعقدہ اس کانفرنس کا عنوان تھا ’’ایک متنوع ثقافت کے حامل معاشرے میں رواداری‘‘۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ڈاکٹر وسیم نے ’ہمارے متعصب رویے کو تشکیل دینے والے عوامل‘ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ’’چالیس اور ساٹھ کی دہائیوں کے دوران اس ریاست کے مذہب کی وضاحت کی گئی تھی۔ اس چیز کو ہم قائدِ اعظم محمد علی جناح کی 1947ء کی تقریر اور اس وقت کے آئینی مباحثوں میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ اس وقت مذہبی عناصر اقلیت میں تھے جو شریعت کا نفاذ چاہتے تھے، لیکن وہ اس نومولود ریاست میں سیاسی اثر و رسوخ نہیں رکھتے تھے۔ حالیہ دہائیوں میں مذہب وہی ہے، جس کی وضاحت ریاست کرتی ہے۔ اس وقت جو مذہبی عناصر اقلیت میں تھے، انہیں وسعت مل چکی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس توسیع سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ پاکستان وسط ایشیا کے ایرانی طرز کے اسلام سے عربی نظریہ میں منتقل ہوگیا ہے۔
اس گہری منتقلی کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر وسیم نے کہا کہ پریشانی اس بات کی ہے کہ یہ ریاست مافوق البشر ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے۔
انہوں نے اپنے نکتہ نظر کی وضاحت کے لیے چھٹی صدی عیسوی کے دوران یورپ میں ہونے والی مذہبی جنگوں کی مثالیں دیں، اور کہا ’’قومیں مفادات رکھتی ہیں، نظریات نہیں، اس لیے کہ وہ مذہبی نظریے کی بنیاد پر اتفاقِ رائے تک نہیں پہنچ سکتیں۔‘‘
سازشی ذہنیت
ڈاکٹر وسیم نے وضاحت کی کہ معاشرے میں عدم برداشت کے رویے کو فروغ دینے میں سازشی ذہنیت نے بھی گہرا اثر ڈالا ہے۔
انہوں نے کہا ’’ہمارے اندر سازشی نظریات نے گہرائی تک جڑ پکڑ لیاہے۔ ہم محصور ذہنیت رکھتے ہیں۔ ہمیں ہر کونے میں بھوت چھپا دکھائی دیتا ہے۔ ہم نے فرض کرلیا ہے کہ ہندو، یہودی اور امریکن ہمیں ختم کردیا چاہتے ہیں۔‘‘
پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر کے مطابق اس طرزفکر نے اقلیتوں کی قانونی حمایت سے محروم کردیا ہے، جو اکثریت کی عدم برداشت کی قیمت ادا کررہی ہے۔
انہوں نے کہا ’’اس قسم کے رویے کے لیے کوئی سماجی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں تشدد کو سماجی طور پر منظوری حاصل ہے۔‘‘
ڈاکٹر وسیم نے ملالہ یوسف زئی پر حملے کے واقعے کو سازشی ذہنیت کے ایک کلاسک کیس کے طور پر پیش کیا، بہت سے لوگ اس وقت اور آج بھی اس پر یقین کیے بیٹھے ہیں کہ وہ کسی ’’مذموم امریکی ایجنڈے‘‘ کا حصہ ہے۔
ایک روادار معاشرے کے لیے بنیادی شرائط
عدم برداشت کی تفہیم کے حوالے سے طالبعلوں کی سوچ کا اندازہ لگانے کے لیے ’’پاکستان کے ساتھ کیا غلط ہوا‘‘ کے مصنف بابر ایاز نے اپنی گفتگو کے دوران مندرجہ ذیل سوالات پوچھے:
’’کیا آپ سمجھتے ہیں کہ فرقہ واریت میں اضافہ ہوا ہے، اگر ہوا ہے تو کیوں؟
کیا نسلی مسائل نے عدم برداشت کے رویوں کو فروغ دیا ہے؟
کیا توہین کا قانون اسلام اور پاکستان کے لیے فائدہ مند ہے؟
اور اگر کوئی قتل کا ارتکاب کرتا ہے تو کیا یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے؟‘‘
طالبعلموں کے جوابات سن کر ان کا حوصلہ بڑھا، جنہوں نے بابر ایاز کے سوالات میں بیان کردہ ان عوامل کی مذمت کی تھی، جن سے عدم برداشت کے رویے کو فروغ ملا ہے۔
اس کے بعد انہوں نے ایک روادار اور پُرامن معاشرے کی بنیادی شرائط کی فہرست پیش کی۔
انہوں نے کہا ’’صرف ایسا پاکستان کہیں زیاد روادار معاشرے کا یقین دلاسکتا ہے، جہاں جمہوریت کو اپنے قابل قدر نظام کی تیاری کی اجازت دی جائے۔
صرف ایک سیکیولر پاکستان ہی تمام مذہبی برادریوں اور فرقوں کے پُرامن بقائے باہمی کو یقینی بناسکتا ہے، جہاں کے تمام شہریوں کو برابری کے حقوق حاصل ہوں اور وہ معاشی وسائل پر دسترس رکھتے ہوں۔
صرف ایسے پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہوگی، جہاں مسلح افواج جمہوری حکومت کے ماتحت ہوں۔‘‘
انہوں نے اپنے آخری نکتے کی مزید وضاحت کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ’آزادی مارچ‘ کی مثال دی،اور کہا کہ یہ جس قدر وزیراعظم نواز شریف کو کمزور کرے گا، اتنا ہی عمران خان کو بھی کمزور بنائے گا۔
پاکستان، ایک پنجابی ریاست ہے؟
اس کانفرنس کے آخری مقرر کراچی یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فرحان حنیف تھے، انہوں نے پاکستان میں نسلی سیاسی رواداری پر ایک بصیرت افروز مقالہ پڑھا۔
یہ سوال کہ کیا پاکستان حقیقی معنوں میں ایک ’پنجابی ریاست‘ ہے، کا جواب انہوں نے نفی اور اثبات دونوں ہی میں دیا۔
انہوں نے کہا ’’میں اس سوال کا جواب ہاں میں دوں گا، اس لیے کہ بیوروکریسی اور فوج پر طویل عرصے سے پنجابیوں کا غلبہ رہا ہے، اور یہ غلبہ اب بھی قائم ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ سندھ اور بلوچستان سے فوج میں جوانوں کی بھرتی کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں، تاہم مسلح افواج میں افسران کی کیڈر زیادہ تر پنجابی ہے۔‘‘
لیکن ڈاکٹر فرحان حنیف محسوس کرتے ہیں کہ بعض حوالوں سے دیکھا جائے تو یہ ریاست پنجابی ریاست نہیں ہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا’’اگر آپ موجودہ سیاسی بحران کو دیکھیں تو پنجابی اکثریت پر مشتمل اسٹیبلشمنٹ کا پنجابی اکثریت کی حکومت کے ساتھ تصام جاری ہے۔‘‘
پنجابی ریاست نہ ہونے کی ایک اور وجہ انہوں نے یہ پیش کی کہ پنجابیوں کو کوئی آئینی مراعات حاصل نہیں ہیں۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا ’’آئین میں بیان کیا گیا ہے کہ ریاست کا سربراہ ایک مسلمان ہونا چاہیٔے، لیکن اس میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ اسے پنجابی بھی ہونا چاہیٔے۔ دوسری جانب ملائیشیا، اسرائیل، ترکی اور سری لنکا جیسے ملکوں کے آئین میں اس حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ ایک خاص قومی گروپ ہی قوم کی قیادت کرے گا۔‘‘