پکوان کہانی : شاہی قورمہ
ایک بہترین پکے ہوئے قورمے سے زیادہ بہتر سالن اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا-
'قورمہ شاید فارسی میں 'کوریش' سے اخذ کیا گیا ہے جو گھی میں پکایا گیا ایک معتدل شوربہ ہے مغلوں نے اس میں بالائی، دہی، بادام ،زعفران اور خوشبودار مصالحوں کا اضافہ کر کے ہندوستانی بنا دیا-
یہ مشہور تھا کہ اگر کوئی باورچی قورمہ پکا سکتا ہے تو وہ مغل باورچی خانے کے لئے موزوں ہے- اگر وہ اس کی درجن بھر اقسام تیار کر سکتا ہے تو وہ باورچی خانے کا بادشاہ اور شہنشاہ کے دسترخوان کے لئے خاص خانساماں بن سکتا ہے'، انڈیا فوڈ اینڈ کوکنگ کے مصنف پیٹ چیپمین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں-
لیکن بعض کا یہ خیال ہے کہ قورمہ کا تعلق وسطی ایشیاء سے ہے، جہاں اسے مختلف ناموں اسخورمہ، قورمہ، کرمہ اور کوارمہ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کی مغلئی شکل سولہویں صدی میں، اکبر اعظم کے شاہی باورچی خانے کے راج خانساماں میر بکاول (اکبر کے نورتنوں میں سے ایک رتن) کی نگرانی میں راجپوت خانساماؤں کے تجربات کا نتیجہ ہے-
ان تجربات سے تیار ہونے والے پکوان کا نام راجپوت باورچیوں نے جنگجو قبیلے 'کرمہ' کے اعزاز میں 'قورمہ' رکھا- قورمہ کے لغوی معنی گوشت کو 'دم دینے' کے ہیں، اور قورمہ پکانے کے طریقہ کار میں گوشت کو پہلے گھی، دہی اور مصالحوں کے ساتھ دم دیا جاتا پھر پانی ڈال کر ہلکی آنچ پر تیار ہوجانے تک پکایا جاتا تھا؛ چھلے ہوۓ باداموں کو پیس کر شوربہ گاڑھا کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا-