نقطہ نظر

کچھ جوابات

وزیر اعظم کا اعلان کردہ کمیشن مسئلے سلجھانے کے بجائے زیادہ الجھا دے گا۔

آزادی مارچ سے کچھ ہی پہلے وزیر اعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل کمیشن قائم کرنے کی حکومتی ایما کا اظہار کیا تھا، تاکہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عائد کردہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کی جا سکے۔ امید تھی کہ اس سے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لینے والے بحران کو ٹھنڈا کرنے میں مدد ملے گی، لیکن اس مجوزہ حل کے بھی اپنے کچھ مسائل ہیں۔

پہلا یہ، کہ جو مسئلہ سیاسی عمل کی مضبوطی میں مددگار ثابت ہو سکتا تھا، اسے کمزور کر دے گا۔ جب الزامات پہلی بار عائد کیے گئے، تو مسلم لیگ ن نے فیصلہ کیا تھا، کہ وہ اس مسئلے سے سیاسی طریقے سے نہیں نمٹے گی، اور موقف اختیار کیا کہ اس طرح کے الزامات کی تحقیقات کے لیے صرف الیکشن ٹریبونل ہی صحیح پلیٹ فارم ہے۔ لیکن 14 مہینوں بعد جب استعفوں کے مطالبات زور پکڑنے لگے، تو فوراً ہی ایک مختلف حل سامنے آگیا۔

اس کے بجائے اگر شروع میں ہی مسلم لیگ ن تحریک انصاف کو توجہ سے سنتی، تو وہ یہ گارنٹی حاصل کر سکتی تھی، کہ پورے الیکشن پر سوال نہیں اٹھایا جائے گا، اور یہ کہ چار حلقوں کی انکوائری سے انتخابی اصلاحات کے لیے رہنمائی حاصل کی جائے گی، اور اس طرح سیاسی مرحلے کا ایک معنی خیز حل نکل سکتا تھا۔ لیکن اب سپریم کورٹ کو کہا جا رہا ہے کہ وہ اس سیاسی جنگل میں آئے، تاکہ مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔

دوسری بات یہ، کہ سپریم کورٹ سے ایک مشکل سوال پوچھا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ سے یہ نہیں کہا گیا، کہ آپ بتائیں کہ عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی یا نہیں، بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ بتائے کہ پی ٹی آئی کا الزام کہ "الیکشن نتائج کو ایک سیاسی جماعت کے مفاد کے لیے تبدیل کیا گیا، یا کوئی عنصر کسی جماعت یا شخص کے مفاد کے لیے ان پر اثر انداز ہوا"، درست ہیں یا نہیں۔

دوسرے الفاظ میں کہیں تو، سپریم کورٹ سے کہا جا رہا ہے کہ وہ بتائے، کہ اس کا سابق چیف جسٹس، سابق جج خلیل الرحمان رمدے، اور سابق نگراں وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی مسلم لیگ ن کے ساتھ ملے ہوئے تھے یا نہیں۔ سپریم کورٹ کو یا تو آٹھ سال کورٹ کی سربراہی کرنے والے شخص کو دھاندلی میں ملوث اور جانبدار قرار دینا پڑے گا، یا بری کرنا پڑے گا۔

اس طرح اگر سپریم کورٹ سابق چیف جسٹس کو بری کر دیتی ہے، تو پی ٹی آئی اور اس کے حامی الزام عائد کر سکتے ہیں، کہ ایسا کرنے میں سپریم کورٹ کے اپنے مفادات تھے۔ یہ ایک ایسا سیاسی مسئلہ ہے، جس میں کورٹ کو نقصان پہنچے گا۔

تیسرا یہ، کہ اگر کورٹ سے لوگوں کے کردار کی انکوائری کے بجائے صرف یہ بھی پوچھا جائے کہ دھاندلی ہوئی تھی یا نہیں، تب بھی اس میں کچھ آئینی مسائل ہیں۔

آئین کا آرٹیکل 225 کہتا ہے کہ "کسی ایوان، صوبائی اسمبلی یا سینیٹ کے انتخابات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا، مگر یہ کھ ایسے الیکشن ٹریبونل کے سامنے الیکشن پٹیشن اس طریقہ کار کے تحت دائر کی جائے، جس کو پارلیمنٹ میں قانون سازی کے تحت وضع کیا گیا ہو"۔

“No election” to a house, provincial assembly or the Senate shall be “called into question” except through an election petition, presented in such manner and to such tribunal as legislated by parliament”.

یہ قانون سازی پہلے ہی عوامی نمائندگی ایکٹ 1976 کی صورت میں موجود ہے، جس کے تحت الیکشن ٹریبونل اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ یہا٘ں پر سوال اٹھاؕئے جانے کا لفظ اہم ہے۔ اگر حکومت کہتی ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کے معاملے پر سپریم کورٹ کا کمیشن مکمل طور پر با اختیار ہو گا، اور حکومت اس کا فیصلہ ماننے کا اعلان کرتی ہے، تو کیا پورے الیکشن پر سوال نہیں اٹھایا جا رہا؟

کہا جا سکتا ہے، کہ آرٹیکل 225 صرف ایک مخصوص الیکشن کو چیلنج کرنے کے بارے میں ہے، نہ کہ الیکشن کی انکوائری کے بارے میں۔ لیکن ایسا کہتے ہوئے یہ مد نظر رکھنا ضروری ہے، کہ یا تو انکوائری میں کچھ حلقے کھولے جائیں گے، یا پھر تمام حلقوں کی انکوائری ہو گی، اور اس طرح کچھ انکشافات کچھ حلقوں کے بارے میں ہوں گے، جن سے ان حلقوں پر سوال اٹھے گا۔

تھوڑی سی تخلیقی سوچ سے آرٹیکل 225 کی اس مشکل سے بچا جا سکتا ہے۔ پہلا یہ، کہ انکوائری کو حلقوں کے بجائے صرف افراد (بشمول ججز) کے کرداروں کی تفتیش تک محدود کر دیا جائے۔ لیکن ایسی کوئی بھی انکوائری کرنے کے لیے ایک غیر جانبدار، اور عدالت کے علاوہ لوگوں پر مشتمل کمیشن قائم کیا جائے۔

دوسرا، اگر کمیشن کا مقصد الیکشن کی تفتیش کے بجائے صرف ایک فیکٹ فائنڈنگ انکوائری ہو، جس کے نتائج کے تحت انتخابی اصلاحات وضع کی جانی ہیں، تو یہ کہا جا سکتا ہے، کہ آرٹیکل 225 کی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے۔

کچھ اور قانونی سوالات بہرحال رہیں گے، وہ یہ کہ موجودہ الیکشن پٹیشنز کے ہوتے ہوئے اس انکوائری کی کیا حیثیت ہو گی؟ پارٹیز کے درمیان اپنی الیکشن پٹیشنر میں کمیشن رپورٹ کا حوالہ دینے سے پرہیز کرنے کا کوئی بھی معاہدہ قابل عمل نہیں ہو گا۔ اور یہ کہ انکوائریاں خالصتاً انتظامی معاملہ ہے، اور آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت عدالتی اور انتظامی امور کی علیحدگی ضروری ہے، اس لیے یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے، کہ ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہیں۔

ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ بھلے ہی یہ الیکشن کی مکمل انکوائری کے بجائے صرف ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیشن ہو، پھر بھی الیکشن کے بارے میں کوئی عدالتی انکشاف الیکشن پٹیشن کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے وزیر اعظم کا اعلان کردہ کمیشن مسئلے سلجھانے کے بجائے زیادہ الجھا دے گا۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔

skhosa.rma@gmail.com

یہ مضمون ڈان اخبار میں 19 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

سمیر کھوسہ
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔