نقطہ نظر

عمران خان کے نام کھلا خط

گزشتہ ایک ہفتے کے واقعات پی ٹی آئی ورکرز کی تمام امیدوں اور توقعات کو بچکانہ، سادہ لوح اور غلط ثابت کر رہے ہیں۔

منافقت، کرپشن، اور سیاستدانوں کی نا اہلی سے تھک ہار کر ہم نے تبدیلی، اور دھوکے اور ناکامی کے اس نہ ختم ہونے والے سلسلے کے خاتمے کی دعائیں مانگنی شروع کیں۔

کسی کو بھی ان روایتی، موروثی سیاستدانوں سے تبدیلی کی امید نہیں تھی، جن میں اکثریت وڈیروں، قبیلے کے سرداروں، مذہبی رہنماؤں، صنعتکاروں، پیروں، اور امراء کی ہوتی ہے، اور جہاں پالیسیاں خاندانوں کے درمیان گھومتی ہیں، یا فیصلہ لیتے وقت خاندانی، اور برادری کے مفاد کو دیکھا جاتا ہے۔

لاکھوں لوگوں نے عمران خان کو ایک مختلف لیڈر تصوّر کیا، جس نے نیچے سے اوپر تک اپنی جگہ بنائی ہے۔ لوگوں کو یقین تھا کہ عمران خان میں وہ آگ ہے، وہ جذبہ ہے جو ان کے "تبدیلی" کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرے گا۔

انہوں نے اس مشہور کپتان پر اعتماد کیا، اسے ووٹ دیے، تاکہ وہ ایک بے خوف اور دانا لیڈر کی طرح اس ملک کے عوام کی نمائندگی کر سکیں۔

میں بھی ان لوگوں میں سے تھا۔

11 مئی 2013 کو میں نے پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا، کیونکہ میں روٹی کپڑا اور مکان، اور ایشین ٹائیگر، اور فحاشی اور عریانی ختم کرنے کے دعویدار انتخابی منشوروں سے تھک چکا تھا۔

اس وقت میں نے سوچا تھا، کہ عمران میں سیاستدانوں والی چالاکی نہیں، اور وہ نا تجربہ کار ہیں، لیکن کم از کم ان کا کردار تو صاف ہے۔ مجھے لگتا تھا کہ عمران خان ایک عالمی پائے کی شخصیت ہیں، اور وہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر واپس لے آئیں گے، اور ان کی عالمی کیلیبر کی شخصیت سے پاکستان اور باقی دنیا کے درمیان موجود خلیج ختم ہو گا۔

مجھے امید تھی کہ وہ پورے پاکستان کے عام لوگوں کے لیے تعلیم کا معیار بہتر بنائیں گے، نہ صرف امراء کے بچوں کے لیے، اور ان عناصر کا خاتمہ کریں گے جو انہیں تشدد پسند اور قدامت پرست بناتے ہیں۔ مجھے لگتا تھا کہ وہ پاکستان کی سیاست کو اپنی سپورٹسمین والے جذبے سے بہتر بنائیں گے۔

میں نے سوچا تھا، کہ ایک قابل سپورٹسمین ایک قابل سیاستدان بھی بن سکتا ہے۔

ہم پی ٹی آئی کے حامی پُراعتماد تھے کہ عمران خان کی قیادت میں شروع ہونے والی تحریک انصاف خیبر پختونخواہ میں ایک مثال قائم کرے گی۔ گڈ گورننس، عقلمند اور مضبوط پلاننگ، اور اداروں میں پروفیشنل اہلیت کو بڑھاوا دے گی۔

لیکن 68 ویں یوم آزادی والے ہفتے میں ہونے والے واقعات ہماری تمام امیدوں اور توقعات کو بچکانہ، سادہ لوح اور غلط ثابت کر رہے ہیں۔

پاکستان کے جمہوری نظام میں اب عمران خان ٹکراؤ کے راستے پر مارچ کر رہے ہیں۔ عمران خان کو اب شفاف انتخابات کے جائز مقصد کے لیے بے منطق کرتے دیکھا جا رہا ہے۔

لوگ ان کی جانب سے شروع کیے گئے الزامات کے سلسلے پر سوال اٹھانے لگے ہیں۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر وہ روز روز کیوں ایک نیا مطالبہ سامنے لے آتے ہیں۔

مجھے ذاتی طور پر یہ لگتا ہے، کہ ان کے اس رویے سے ان کی نیت پر کچھ سنجیدہ سوال اٹھ رہے ہیں۔

لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں، کہ ان میں اور طاقت کی خواہش رکھنے والے دوسرے سیاستدانوں میں کیا فرق ہے۔

بحران کے اس دور میں، اور پی ٹی آئی کی گرتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کر کچھ سوالات جو پی ٹی آئی کے ایک سپورٹر کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں، وہ یہ ہیں کہ آخر؛

1۔ اگر دھاندلی اتنے وسیع پیمانے پر ہوئی تھی، تو شروع میں انتخابی نتائج کو تسلیم ہی کیوں کیا گیا؟

2۔ پی ٹی آئی کیوں وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ کیا صرف وہ ہی دھاندلی میں ملوث تھے؟

3۔ حکومت کے خلاف اس کھیل میں اس کے ساتھ کینیڈین انقلابی کے علاوہ اور کوئی کیوں نہیں ہے؟

4۔ عمران خان کیوں ہر کسی پر ہر جگہ جب چاہیں دھاندلی کے الزامات عائد کر رہے ہیں، کیا یہ ان جیسے قابل سیاستدان کو زیب دیتا ہے؟

5۔ پی ٹی آئی کا موقف روز بروز یو ٹرن کیوں لیتا رہتا ہے؟

اور سب سے اہم یہ، کہ اسمبلیوں سے استعفے کے معاملے میں پی ٹی آئی کا موقف اتنا دو رخا کیوں ہے؟ آپ سب اسمبلیوں سے استعفیٰ دے رہے ہیں، لیکن خیبر پختونخواہ میں نہیں، کیونکہ وہاں آپ کی حکومت ہے اس لیے؟ پورے ملک کے اور خیبر پختونخواہ کے انتخابات میں آخر کیا فرق تھا؟

میں صرف امید کر سکتا ہوں کہ عمران خان اپنی ٹکراؤ والی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں گے، جن کی وجہ سے ملک افرا تفری اور غیر یقینی کی طرف جا رہا ہے۔

میں اپنے آپ کو انصافیئن سمجھتا ہوں، کیونکہ میں ترقی، شفافیت، اور انصاف چاہتا ہوں، نا کہ تصادم اور بحران۔

عمران خان کے حامی ان سے یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں، کہ وہ جمہوریت اور پاکستان کو نقصان پہنچانے سے گریز کری٘ں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ایبٹ آباد میں مقیم ہیں، اور تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔

شعیب ترک
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔