شہنشاہ سے ڈپٹی کمشنر جیسا کردار بن جانے والے وزیراعظم
اسلام آباد: مشکل کے شکار وزیراعظم نواز شریف کو فوج نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس کی جانب سے کوئی بغاوت نہیں ہوگی، مگر اس کے جواب میں انہیں " آرمی سے فاصلہ برقرار رکھنا ہوگا"۔
یہ دعویٰ حکومتی ذرائع نے دونوں اطراف کی بات چیت کے حوالے سے کیا ہے۔
خبررساں ادارے رائٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ ہفتے ہزاروں افراد نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت میں مارچ کرتے ہوئے پہنچے تو وزیراعظم نے اپنے دو نمائندے مشاورت کے لیے آرمی چیف کے پاس بھیجے۔
نواز شریف جاننا چاہتے تھے کہ کیا فوج خاموشی سے عمران خان اور طاہر القادری کے احتجاجی مظاہروں کو بڑھاوا دے رہی ہے یا وہ بغاوت کے لیے اسٹیج تو تیار نہیں کررہی۔
حکومت کے اندرونی ذرائع کے مطابق اس ملاقات کے بعد نواز شریف کے نمائندے اچھی اور بری دونوں طرح کی خبریں لے کر واپس لوٹے، اچھی خبر تو یہ تھی کہ فوج کا حکومتی تختہ الٹنے کا کوئی ارادہ نہیں تاہم اگر وہ اپنی حکومت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں فوج سے فاصلہ برقرار رکھنا ہوگا۔
فوج کے میڈیا ونگ نے اس بارے میں بات کرنے سے انکار کیا ہے۔
ہزاروں مظاہرین منگل کو تمام رکاوٹیں توڑ کر پارلیمنٹ کے سامنے پہنچ گئے تھے اور پولیس ودیگر سیکیورٹی اہلکار مداخلت نہ کرنے کی ہدایت پر خاموشی سے انہیں دیکھتے رہے۔
فوجی ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے ٹوئیٹر پیغام کے ذریعے مظاہرین کو یاد دہانی کرائی کہ وہ حکومتی اداروں کا احترام کریں اور اس بحران کے حل کے لیے بامقصد مذاکرات کریں۔
اگر عمران خان اور طاہر القادری کے مظاہرے فوج کی خاموش حمایت نہ ملنے پر بتدریج ناکامی کا شکار بھی ہوگئے تو بھی یہ سیاسی بحران وزیراعظم کو کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔
نواز شریف طالبان کے خلاف جنگ، پاک ہندوستان تعلقات اور نیٹو کے بعد افغانستان ایسے معاملات کو خود ہینڈل کرنے کے لیے فوجی جرنیلوں کو اپنے ماتحت کرنا چاہتے ہیں۔
رائٹرز سے بات کرتے ہوئے ایک وفاقی وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا" اس بحران میں سب سے زیادہ نقصان نواز شریف کو ہوگا، جن کی سیاسی قامت کو بونے سیاسی حریف اور طاقتور فوج کاٹ کر چھوٹا کردیں گے"۔
ایک سال قبل بہت کم حلقے اس بات کی پیشگوئی کرسکتے تھے کہ نواز شریف کو اس طرح کی مشکلات کا سامنا ہوگا، کیونکہ اس وقت انہوں نے پاکستان میں پہلی بار ایک منتخب حکومت سے دوسری تک اقتدار منتقل ہونے کے بعد تیسری بار وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا۔
مگر کچھ ماہ بعد جو ماضی میں فوج کے خلاف تلوار اٹھا چکے تھے، نے ملک میں سویلین حکومت کے اختیارات میں اضافے کی کوشش کی۔
نواز شریف کو 1999 میں فوجی بغاوت کے ذریعے وزارت عظمی سے ہٹانے والے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلا کر فوجی جنرلوں کی مخالفت مول لی۔
اسی طرح نواز شریف نے طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کی مخالفت کی جبکہ وہ ہندوستان سے مصالحت بھی چاہتے تھے۔
ہندوستان سے تجدید تعلقات خطرے میں
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سویلین فوجی تعلقات میں بگاڑ پر نواز شریف کو شبہ تھا کہ انہیں ہٹانے کے لیے ہونے والے احتجاج کی دوڑیاں فوج ہلاک رہی ہے۔
انہیں یہ بھی خدشہ تھا کہ اگر احتجاج پرتشدد ہوگیا تو فوج صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں کرسی سے ہٹاسکتی ہے، تاہم گزشتہ بدھ کو راولپنڈی میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کرنے والے وزیراعظم کے دو قریبی ساتھیوں کو بتایا گیا کہ فوج کا مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں۔
حکومتی اندرونی ذرائع نے بتایا" فوج کا بغاوت کا کوئی ارادہ نہیں تاہم اگر حکومت اپنے متعدد مسائل سے نجات اور اپنی باقی مدت گزارنا چاہتی ہے تو اسے فوج سے خود کو دور رکھنا ہوگا"۔
فاصلہ برقرار رکھنا پاکستان کی سیاسی حکومتوں میں عام ہے یعنی وہ اپنی توجہ صرف مقامی سیاسی امور تک محدود رکھتے ہیں جبکہ سیکیورٹی اور اسٹرٹیجک پالیسی کے معاملات فوج پر چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ فوج کا ڈرائیونگ سیٹ پر واپس آنا نواز شریف کے لیے ہندوستان سے تجدید تعلقات کو مشکل بنادے گا جس کا وعدہ انہوں نے گزشتہ برس انتخابات کے موقع پر کیا تھا۔
ہندوستانی میڈیا نے رواں ہفتے یہ شک ظاہر کیا تھا کہ فوجی جنرلز پہلے ہی نواز شریف کو امن مذاکرات سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کرچکے ہیں۔
نئی دہلی نے آئندہ ہفتے شیڈول خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان ملاقات منسوخ کردی کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ پاکستان اس ملاقات سے پہلے کشمیری حریت پسندوں سے مشاورت کا ارادہ رکھتا ہے۔
پاکستانی فوج کے غلبے کا ایک مطلب یہ بھی ہوگا کہ حکومت کے افغانستان سے تعلقات کی خواہش پر بھی اثرانداز ہوگا۔
قیمت چکانا پڑے گی
بہت کم حلقوں کا ماننا ہے کہ اقتدار کے حصول کے لیے فوج عمران خان کی حامیت کررہی ہے۔
ایک سابق انٹیلی جنس سربراہ نے نام چھپانے کی شرط پر بتایا" فوج جانتی ہے کہ عمران خان کچن کے زبردست پریشر ککر ہیں مگر وہ ان پر بطور باورچی اعتماد نہیں کرسکتے"۔
نواز شریف کو اب اس غلط خیال کی قیمت چکانا پڑے گی کہ فوج عمران خان کو انہیں ہٹانے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔
وزیراعظم کے ایک ساتھی نے بتایا" عمران خان کو کھیل کا رخ پلٹ دینے والے سمجھنے کے خیال نے نواز شریف کو فوج کے سامنے سر جھکانے پر مجبور کردیا ہے"۔
ان کے بقول" روس کے زار شہنشاہ جیسے وزیراعظم کو فوج نے ڈپٹی کمشنر جیسے کردار میں تبدیل کردیا ہے اور وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اہم امور جیسے افغانستان اور ہندوستان وغیرہ پر اپنی گرفت مضبوط کررہی ہے جو چھوٹا نقصان نہیں"۔
تاہم نواز شریف کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے ہاتھوں جیل جانے، پاکستان سے جلاوطنی اور اپوزیشن پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے پانچ سال گزارنے سے نواز شریف کو یہ سمجھ میں آگیا ہے کہ اپنی بقاءکے لیے اختیار کو شیئر کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم کے ایک مشیر کے مطابق" یہ پرانے نواز شریف نہیں جو ہر ایک سے لڑنے کے لیے تیار رہتے تھے، بلکہ یہ نئے نواز شریف ہیں جنھوں نے مشکلات سے گزر کر یہ سیکھا ہے کہ سیاست اگلے روز تک زندہ رہنے کی جنگ کا نام ہے"۔