آئینی نظام کو لاحق خطرات
ایک بدقسمت عدالتی فیصلہ، جو سنا بھی نہیں گیا، لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کواپنا مارچ شروع کرنے سے روکا- لوگوں کی خواہش تو یہی تھی کہ عدالت صبروتحمل کا مظاہرہ کرتی، بجائے اس کے کہ سیاسی دنگل میں کود پڑے-
چاہیے تو یہ تھا کہ عدالت سیاسی سوالوں کا اصول اپناتی اور یہ فیصلہ دیتی کہ سیاسی معاملات کو سیاسی حکومتوں اورقانون سازوں کیلئے حل کرنے کو چھوڑ دیا جائے- عدالت یہ بھی کہہ سکتی تھی کہ درخواست قبل ازوقت ہے اور یہ فرض کرلینے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی اپنے مطالبات منوانے کیلئے کوئی غیرقانونی حربہ استعمال کرینگے-
اس کا نتیجہ اپنی جگہ پر، عدالت کی بتائی ہوئی وجوہات میں بھی کوئی دم نہیں ہے- کوئی عدالت کیسے کسی سیاسی مطالبے کو پہلی نظر میں غیرقانونی قرار دے سکتی ہے جو وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتی ہو، قومی اسمبلی کی تحلیل، پاکستان کے الیکشن کمیشن (ECP) کی نئے سرے سے تشکیل اور ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ایک نگراں حکومت کے قیام کا مطالبہ کرتی ہو؟ کیا کوئی عدالت قبل ازوقت یہ پیش گوئی کرسکتی ہے کہ ایک سیاسی جماعت اپنے مطالبات منوانے کیلئے عوامی رائےعامہ کو اپنےساتھ لیکر حکومت پر اخلاقی دباؤ ڈالنے کی کوشش کرنے کی بجائے جبر کا ہتھیار استعمال کرے گی؟
ہمارا آئین اور ہمارے قوانین ایسی سیاسی دستاویزات ہیں جو سیاسی عمل کا نتیجہ ہیں- اور کون سا قانون کسی شہری کو کسی ایسے پبلک آفیشل کے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے سے روک سکتا ہے جو نااہل یا ناکارہ ہو یا اخلاقی اختیار کھو چکا ہو؟ کیا پارلیمنٹ ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ای سی پی کی تشکیل نو کا قانون وضع نہیں کرسکتی؟ کیا حکومت اورحزب اختلاف مل کر ٹیکنوکریٹس کی ایک نگراں حکومت نامزد نہیں کرسکتے ہیں؟
عدالت کے عبوری حکم نامے کا فیصلہ تھا کہ "غیرقانونی" مارچ نہیں کئے جاسکتے ہیں " یوم آزادی کی حرمت کو مد نظر رکھ کر"- کیا عدالتوں کو قانونی فیصلے دیتے وقت سیاسی دلائل دینے چاہیئں؟ کیا آئین کہیں یہ کہتا ہے کہ آزادانہ نقل وحرکت کے بنیادی حقوق، تحریروتقریراور جمع ہونے کے حقوق ان مخصوص دنوں مثلاً 14 اگست وغیرہ کو معطل ہوجاتے ہیں اور کیوں صرف ممکنہ حقوق کی پامالی کی بنیاد مستقبل کے مارچ ہی ہیں اور حکومت کی سخت گیریوں کی بناء پر حقوق کی پامالی ( جیسے کہ ناکہ بندیاں اور قید وغیرہ) کیوں نہیں؟
لاہورہائیکورٹ کے فیصلے کے برخلاف سپریم کورٹ کا جاری کیا ہوا فیصلہ بہت متوازن ہے- اس نے ریاستی اہل کاروں کو ہدایت کی ہے " صرف آئین اور قانون کے مطابق عمل کریں" اور آئین اور قانون کے اصولوں کی پاسداری کریں جیسا کہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بنام وفاق کے کیس میں ہوا تھا- یہاں پر پوری توجہ اس سیاسی افراتفری کے دوران، دوسیاسی مخالفین کے درمیان ایک سیاسی فریق بننے کی بجائے آئینی احکامات اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ پر ہے-
لیکن عدالت عظمیٰ آئینی احکامات کے تحفظ کیلئے بس ایک حد تک ہی کوشش کرسکتی ہے- اور فرسودہ سیاسی اداکاروں کا ( جو اتنے ہی پرانے ہیں جتنے ہمارے پہاڑ) نیا ' انقلابی ' جوش، جو یہ یاد دلانے کیلئے ہے کہ پاکستان میں سیاسی عزائم اور تبدیلی کا بنیادی نقطہ مصلحت کوشی ہے- ایسے موقعوں پر، ہمارا یہ دعویٰ کہ جمہوریت کی جڑیں سول اور ملٹری کی مضبوط حمایت سے بہت پائدار ہو چکی ہیں ایک خام خیالی لگتا ہے-
وہ خوف جو لاہور ہائی کورٹ کے ناقص یا عدالت عظمیٰ کے باشعور فیصلہ کا نتیجہ ہے وہ ایک تصوراتی شے نہیں ہے- پاکستان میں جمہوریت یا آئین کی طاقت ابھی بھی کمزور ہے اور اسے طاقت بخشنے کی ضرورت ہے- پی ٹی آئی کی سیاست انتشار کی سیاست ہے کیونکہ یہ نہ صرف علیحدگی کے احساسات کو دوبارہ جنم دے رہی ہے بلکہ 1990 کی دہائی کی معاندانہ سیاست جس میں سیاسی مخالفین کیلئے پرامن طریقہ سے رہنا ممکن نہیں ہو اور وہ ریاستی ادارے جو کسی بھی تبدیلی کیلئے لازمی ہوں ان کو غیرقانونی قرار دینے کی بات کررہی ہے-
پی ٹی آئی کی تبدیلی کی تجاویز اور ان کو کارآمد بنانے کے طریقوں میں کوئی منطقی مطابقت نہیں ہے- اگر وزیراعظم پی ٹی آئی کے مطالبوں کو مان کر، پارلیمنٹ کو برخواست کرکے 90 دن میں نئے انتخابات کروانے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں، تو انتخابات ان ہی موجودہ قوانین اور الیکشن کمیشن کے تحت ہونگے اور 2013ء میں جو ہوا اس پر کسی احتسابی عمل کے بغیر- اور اگر ترجیح مستقبل میں صاف شفاف اور قابل اعتماد انتخابات ہیں، تو انتخابی اصلاحات کیلئے موجودہ حکومت کی حمایت اور موجودہ پارلیمنٹ کی تائید ضروری ہے-
ہمارا آئین صرف وزیراعظم کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کوقبل ازوقت برخواست کرنے کی سفارش کریں اور ان پر بندوق کے زور سے اس پر عمل نہیں کروایا جاسکتا ہے- اور موجودہ الیکشن کمیشن کو آئینی تحفظ حاصل ہے اور صرف سپریم جوڈیشل کونسل اس بات کی مجاز ہے کہ اسے اسی صورت میں ہٹائے اگر اس پر کوئی ناشائستہ طرزعمل کا الزام ثابت ہو جائے- تو پھر حکومت کے پاس اس کے علاوہ کیا طریقہ رہ جاتا ہے کہ نادرا کے موجودہ چیرمین، چیف الیکشن کمشنر اور دوسرے الیکشن کمشنرز کو (ان کی مدت ختم ہوجانے کے بعد) ہٹاکر حزب اختلاف کی جماعتوں، جس میں پی ٹی آئی بھی شامل ہے، کی مشاورت سے نئے سرے سے ان سب کی تعیناتی کریں؟
یہ تجویز، کہ ایک جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے جو اس بات کا تعین کرے کہ 2013ء کے انتخابی نتائج پی ایم ایل ن کے حق میں کرانے کی ایک بڑی سازش تھی، مسائل سے بھری ہوئی ہے- کمیشن قائم کرنا، پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956 کے تحت اعلیٰ انتظامیہ کی کارروائی ہے- کیا کوئی ایسا کمیشن، چاہے اس میں سپریم کورٹ کے جج شامل ہوں، اس قانونی کارروائی کا حق رکھتا ہے، جس کا مجاز آئین کے آرٹیکل 225، جسے Representation of Peoples Act 1976 کے ساتھ پڑھنا چاہئے، کے تحت صرف الیکشن ٹریبونل ہے؟
اور اگر ایسا کمیشن انکوائری کے بعد یہ معلوم بھی کرلے کہ ایک بڑے پیمانے پر دھاندلی واقعی ہوئی تھی، تو کیا الیکشن ٹریبونل اس کمیشن کی سفارشات کو ماننے کا پابند ہوگا؟ کیا ایک جوڈیشل فورم کی ضرورت نہیں ہوگی کہ تمام شہادتوں کی تصدیق کے بعد کہ 2013 کے عام انتخابات دھاندلی کا شکار تھے لہٰذا کالعدم قرار دیئے جائیں؟
کیا سپریم کورٹ واقعی الیکشن میں دھاندلی کی انکوائری کیلئے رضامند ہوجائیگی جبکہ یہ ٹریبونل کے فیصلوں کے خلاف اپیل سننے کی بھی مجاز ہے؟ اور کیا اگر سپریم کورٹ کے مجوزہ کمیشن کی تحقیق کے مطابق دھاندلی کی بڑی سازش صرف پی ٹی آئی کے اپنے زرخیز ذہن کی پیداوار ہے؟ تو کیا پی ٹی آئی یہ بات تسلیم کرلے گی اور معاملات وہیں ختم ہوجائینگے یا اپنے پرانے غیر مصدقہ الزامات پر اڑی رہیگی کہ موجودہ سپریم کورٹ اس سازش میں ملوث ہے جو افتخار چودھری، سابق چیف جسٹس کے ایما پر کی گئی تھی؟
پی ٹی آئی کی سیاست کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ کسی طرح کے موجودہ آئینی صورت حال میں ممکن سیاسی حل کیلئے تیار نہیں ہے- یہ یک طرفہ تحریک جو پی ٹی آئی چلارہی ہے یہ سوائے اپنے حامیوں کے کسی کو بھی مطمئن نہیں کرسکتی ہے کہ ایک مخالف پارٹی کی حکومت کو اقتدار سے ہٹانا ایک انقلابی تبدیلی کی مانند ہے- لیکن یہ جو کررہی ہے وہ سیاست اور سیاسی طبقہ کے خلاف نفرت میں اضافہ کا باعث ہوگا اور اس شرانگیز نظریہ کو تقویت دیگا کہ ہم وہ لوگ ہیں جو جمہوریت کے قابل نہیں ہیں-
لکھاری وکالت کے پشے سے وابستہ ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر @babar_sattar کے نام سے لکھتے ہیں۔
ترجمہ: علی مظفر جعفری
یہ مضمون ڈان اخبار میں 18 اگست 2014 کو شائع ہوا۔