انقلاب کا ترپ پتّہ
چلو جی اب ہم گاندھی کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں، اب کوئی بھی ٹیکس نہیں دے گا، بجلی اور گیس کے بل بھی نہیں دیں گے، ریاست کی "رام نام ستے ہے"، عمران خان صاحب نے اعلان کر دیا سو کر دیا، اور ہاں 48 گھنٹے ہیں میاں صاحب کے پاس استعفیٰ نہ دیا تو وزارت عظمیٰ کا بھی "انتم سنسکار".
خان صاحب تو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش میں لگ رہے ہیں، کیوں کہ سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان تو کبھی بانی پاکستان نے بھی نہیں کیا تھا، حالانکہ اس وقت تو ماحول اور صورتحال انتہائی گھمبھیر تھی.
1977 میں سول نافرمانی تجویز پیر پگارا، مولانا مفتی محمود، ولی خان، میاں طفیل محمّد، پروفسرغفور، نواب خیر بخش مری، سمیت دیگر کئی اہم سیاستدانوں کے سامنے اس وقت رکھی گئی تھی جب تقریباً 1200 لوگ جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، پورا ملک جام پڑا تھا اور کئی شہروں میں مارشل لا نافذ تھا، اس وقت انہوں نے کہا تھا کے یہ ریاست سے بغاوت ہو گی، ریاست کا کوئی قصور نہیں ہے.
سول نافرمانی کی تحریک عموماً کولونیل طاقتوں یا مارشل لا حکومتوں کے خلاف چلائی جاتی ہے، جس کی دو مثالیں موجود ہیں، مہاتما گاندھی نے یہ تحریک برطانوی قبضے سے آزادی کے لئے چلائی تھی. جبکے 1919 کے مصر کے انقلاب میں بھی یہ تحریک برطانوی قبضے کے خلاف چلائی گئی تھی.
خان صاحب فرما رہے ہیں کہ بجلی اور گیس کے بل ادا نہیں کریں گے اور نہ ہی ٹیکس دیں گے، حضور والا پاکستان قوم پہلے ہی آپ کی تجویز پر عمل پیرا ہے.
تنخواہ دار بھی ٹیکس دینا نہیں چاہتے مگر بینک خود ہی ان کی تنخواہوں سے ٹیکس کاٹ لیتا ہے، ایف بی آر کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آبادی میں سے 1 فیصد سے بھی کم لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں.
ایک بین الاقوامی صحافی کا پاکستان میں ٹیکس کے حوالے سے ٹویٹ حاضر خدمت ہے:
خان صاحب فرما رہے ہیں کے یہ اسمبلی جعلی ہے تو ذرا سی جرات اور کریں اور کہہ دیں کہ اسی اسمبلی میں آپ کے جو ممبر حضرات ہیں وہ بھی جعلی ہیں، کیوں کہ ایسا تو نہیں چلے گا نا کہ ن لیگ یا دیگر پارٹیوں کے ممبر جعلی جب کے اسی انتخابات کے زریعے سے آنے والے آپ کے اصلی!
پاکستان میں یہ دھاندلی دھاندلی والا کھیل خان صاحب نے ہی متعارف نہیں کروایا، یہ تو تقریباً اس ملک کے قیام سے ہی چلا آ رہا ہے، جو بھی ہارتا ہے وہ دھاندلی کا رونا رونے بیٹھ جاتا ہے. کسی کو دھاندلی کا رونا رونا چاہیے تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی ہونی چاہیے کیوں کہ خان صاحب جن سے مذاکرات کے لئے حکومت کے پیچھے پڑے ہوۓ تھے انہوں نے ان تین پارٹیوں کو انتخابی مہم ہی نہیں چلانے دی تھی.
پاکستان کے ساتھ اس وقت "بزکشی" کا کھیل جاری ہے (بزکشی کھیل پولو سے ملتا جلتا ہے، جس میں وحشیانہ حرکتوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے. اس کھیل میں گھڑ سوار کسی بچھڑے یہ بکرے کے دھڑ کو ایک دوسرے سے چھیننے کا مقابلہ کرتے ہیں، اس کھیل کے اصولوں کے مطابق کبھی اس دھڑ کو گھسیٹا جاتا تھا کبھی اٹھایا جاتا تھا) آج ریاست پاکستان اور اس کے سپریم ادارے وہ دھڑ بنے ہوۓ ہیں جس کو کبھی قادری صاحب چھینے کی کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے تو کبھی خان صاحب.
اس وقت جب خیبر پختونخواہ میں تقریباً دس لاکھ متاثرین بیٹھے ہوۓ ہیں اور بارش نے بھی کافی تباہی پھیلائی ہے تحریک انصاف کے وزیر اعلی اسلام آباد میں انٹرٹینمنٹ فرما رہے ہیں اور صوبے کی عوام کو بے یار و مددگار چھوڑا ہوا ہے کیا یہ نیا پاکستان ہے؟ یا ان کو سنبھالنے کے ڈر سے اسلام آباد آ بیٹھے ہیں؟
خان صاحب کا سارا زور مرکزی حکومت کو گھرانے پر ہے، اس کا مقصد کے صرف جن نشستوں سے ن لیگ جیتی ہے وہیں دھاندلی ہوئی ہے، جہاں کوئی اور جیتا وہاں سب فرشتے بیٹھے ہوۓ تھے، وہاں الیکشن کمیشن کا عملہ عمامہ پہنے ہاتھ میں تسبیح پکڑے بیٹھا تھا.
رہی بات جمہوریت کی تو اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ خان صاحب فرماتے ہیں 12 گھنٹے میں سوچتا رہا اور پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا جاۓ.
مطلب یہ فیصلہ خان صاحب کا اپنا ہے اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کا اس سے کوئی تعلق نہیں، جبکہ خان صاحب نے ان سے مشوره کرنا بھی گوارا نہیں سمجھا. ویسے تو خان صاحب کور کمیٹی کی بہت بات کرتے ہیں، اب کور کمیٹی کہاں گئی؟
شاید صاحب کو ڈر ہے کہ آئندہ انتخابات میں یہ ان سیٹوں سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں، شاید ایک لاکھ موٹر سائیکل کا دعویٰ خاک میں مل جانے کے بعد خان صاحب کچھ سنجیدہ ہو گئے ہیں، لیکن یہ میری غلط فہمی ہی ہو سکتی ہے، کیوں کہ خان صاحب کا 48 گھنٹوں بعد اسمبلی میں گھسنے والی دھمکی نے سارا پول کھول کے رکھ دیا ہے.
اگر اسمبلی یا وزیراعظم ہاؤس میں چند ہزار کارکنان گھسا کر ہی حکومت میں آنا ہے تو پھر ملک میں انتخابات کروانے کا کیا فائدہ آج آپ چند ہزار لوگ پارلیمنٹ ہاؤس میں گھسا کر وزیر اعظم بنے کل کوئی اور یہی عمل دوہراے گا اگلے دن کوئی اور کھڑا ہو جاۓ گا. پھر تو ملک میں انتخابات کے بجاۓ دھرنوں سے حکومتیں منتخب کی جائیں گی. واجپائی نے بھی کیا خوب جملہ کہا تھا کہ اتنی تو میں اپنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیر اعظم بدلتے ہیں.
پاکستانی عوام گزشتہ سال یہ امید لگا بیٹھی تھی کے ملک میں جمہوریت مستحکم ہو رہی ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار اقتدار کی منتقلی آئین و قانون کے مطابق ہوئی ہے، جبکہ چھینا جھپٹی کلچر کا خاتمہ ہوا ہے، ان کو امید تھی کہ اب ملک میں کچھ بہتری آئے گی اور عوامی منصوبات پر کچھ کام ہو پاۓ گا.
لیکن ابھی تو صرف ایک سال ہی گزرا کے ماضی کی طرح ٹانگ کھینچنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، ملک میں ایک بار پھر عدم برداشت، ہوس اقتدار اور غیر جمہوری جن بے قابو ہو گیا ہے. لیکن اس دفعہ اگر یہ جن اپنے منصوبوں میں کامیاب ہو گیا تو میرے خیال سے ملک سے جمہوریت اب ایسا روٹھے گی کے منانے کے لئے اس بار پاپڑ بیلنے سے بھی کام نہیں چلے گا.
خان صاحب کو عام آدمی پارٹی سے سبق سیکھنا چاہیے، وہ بھی لوکل گورنمنٹ میں کامیابی حاصل کر کے مرکز کا خواب دیکھ رہی تھی اور اسی چکر میں استعفیٰ دے کر گھر کو چلی گئے تھی، پھر اس کا حشر کیا ہوا سب جانتے ہیں. سندھی زبان میں ایک بڑی مشہور کہاوت ہے کہ؛
"سجی جے چکر میں ادھ بھی ونجاۓ ویھندے" (پوری کے چکر میں آدھی بھی گنوا بیٹھو گے).
دوسری طرف حکومت بھی ستو پئے نظر آتی ہے، ملک میں ایک مہینے سے جاری افراتفری سے نمٹنے کے لئے کوئی بھی حکمت عملی نظر نہیں آ رہی، ملکی ادارے مفلوج نظر آ رہے ہیں عوام حالت کسمپرسی میں مبتلا ہے، ملکی سرگرمیاں مفلوج ہو چکی ہیں اور کاروبار کو گھن لگ رہا ہے، اسحٰق ڈار کے بقول ان احتجاجوں کے باعث ملک کو 450 بلین کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا. مگر میاں صاحب بھولے بھیا بنے عوام سے پوچھ رہے ہیں کہ بھئی میرا کیا قصور؟
کم سے کم اتنا تو کر سکتے ہیں کے پارلیمنٹ کا جوائنٹ اجلاس بلا کے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیں، اور ایک آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ان صاحبان سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی وضع کریں.
لکھاری اینکر پرسن اور تجزیہ کار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں، اور ان دنوں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پرtanvirarain@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔