پاکستان

طاہر القادری کے دھرنے میں زیادہ تر بزرگ 'انقلابی' شامل

مارچ اور دھرنے میں شامل بزرگ افراد نے ثابت کردیا کہ تبدیلی کا خواب دیکھنے کے لیے صرف جوان خون کی ہی ضرورت نہیں ہوتی۔

اسلام آباد: اگر چہ نوجوانوں کو کسی بھی ملک میں تبدیلی کا ایجنٹ سمجھا جا تا ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ فی الوقت پاکستان میں حکومت مخالف انقلاب اور آزادی کی تحریکیں چلانے والے دونوں افراد ساٹھ برس سے زائد عمر کے حامل ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 61 سالہ سربراہ عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے 63 سالہ سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری 64 سالہ وزیراعظم نواز شریف کو ہٹانے کے لیے آزادی و انقلاب مارچ کی تحریکیں چلا رہے ہیں۔

تاہم ان مارچوں اور دھرنوں میں شامل ہونے والے ادھیڑ عمر اور بزرگ افراد نے یہ ثابت کردیا کہ تبدیلی کا خواب دیکھنے کے لیے صرف جوان خون کی ہی ضرورت نہیں ہوتی۔

پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے میں شامل بزرگ افراد اپنے قائد سے بھرپور عقیدت کے باوجود بھی نہایت حقیقت پسندی سے اس بات کو جانتے ہیں کہ ان کے دھرنے سے کون سے مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں اور کون سے نہیں۔

کئی دہائیوں پر محیط سیاسی اتار چڑھاؤ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے عوامی تحریک کے یہ بزرگ انقلابی ملک کے مختلف کونوں سے آبپارہ میں جمع ہوئے ہیں۔

وہ اس بات کو جانتے ہیں کہ انقلاب راتوں رات نہیں آتا اور اس حوالے سے وہ کچھ ملی جلی کیفیات کا شکار بھی ہیں، تاہم پھر بھی یہ تمام افراد اس وقت تک یہاں موجود رہنے کے عزم کے ساتھ آئے ہیں جب تک ان کے قائد انھیں جانے کا حکم نہ دیں۔

اڈیالہ روڈ راولپنڈی سے پی اے ٹی کے دھرنے میں شامل 65 سالہ سرفراز خان کا کہنا ہےکہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ اس لیے موجود ہے کیوں کہ اسے ان سے مذہبی عقیدت ہے۔

سرفراز خان کا کہنا تھا کہ 'میں کئی دہائیوں سے ڈاکٹر طاہر القادری کا مرید ہوں اور یہ ان کی عقیدت ہی تھی جو انھیں ڈاکٹر طاہر القادری کی ریلی میں شرکت کے لیے آبپارہ لیے چلی آئی'۔

لیکن ان تمام باتوں کے باوجود بھی سرفراز خان انقلاب مارچ کے نتائج کے حوالے سے پر امید نہیں ہیں۔

سرفراز کے مطابق ‘میرا نہیں خیال کہ انقلاب یوں راتوں رات حاصل کیاجا سکتا ہے۔ انقالب تو صدیوں کی محنت اور قربانیاں مانگتا ہے’۔

واہ کینٹ سے تعلق رکھنے والے 50 سالہ سید مجدد کا ماننا ہے کہ انقلاب کو حقیقت کا روپ دھارنے میں وقت لگتا ہے، تاہم ڈاکٹر طاہر القادری اس مارچ کے دوران کچھ اہم فیصلے کریں گے، جو ایک پر امن تبدیلی کی طرف جائے گا۔

دوسری جانب عوامی تحریک کے کچھ کارکنان اس حوالے سے بہت پر امید ہیں کہ انقلاب اٹل ہے۔

خانیوال سے آنے والے 54 سالہ محمد ارشاد کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک آبپارہ چوک میں رہے گا جب تک انقلاب آ نہیں جاتا۔

ارشاد کے مطابق 'میں دل کا مریض ہوں اور مجھے ڈاکٹر نے اس قسم کی سرگرمیوں سے دور رہنے کا مشورہ دیا ہے، لیکن میں نے ڈاکٹرکی ہدایات کو نظر انداز کردیا'۔

لاہور سے آنے والے 67 سالہ فیضان علی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے پینتیس برس پہلے اپنی جدوجہد کا آغاز کیاتھا اور اب وقت ہے کہ انقلاب کی صورت میں اس جدوجہد کا پھل حاصل کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے مقاصد پورے ہوئے بغیر گھر نہیں جائیں گے۔

اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے 54 سالہ امیر حمزہ، اپنی بیوی، تیرہ سالہ بیٹے اور سترہ سالہ بیٹی کے ہمراہ دھرنے میں موجود ہے۔

امیر حمزہ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اور پورے نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ وہ اس انقلاب مارچ میں صرف اپنے بچوں کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے شامل ہوئے ہیں۔

چوہتر سالہ محمد افضل کا کہنا تھا کہ صرف ڈاکٹر طاہر القادری ہی اپنے انقلاب کے ذریعے غریبوں کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔