نقطہ نظر

پاکستانی کسان اور بارش کی آس

اگرمحکمہ موسمییات کی پیشنگوئی درست ثابت ہوتی ہے تو زراعت کے لیے پانی کی کمی واقع ہوسکتی ہے۔

دھان کاشتکار بلال مصطفی کا چہرہ پھیکا پڑگیا جب انہوں نے ریڈیو پر مون سون بارشوں کے بارے میں خبر سنی۔ خبر میں بتایا گیا کہ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں حالیہ مون سون بارشیں معمول سے کم ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ ان پر کپکپی طاری ہوگئی اور وہ تقریباً بیہوش ہوچکے تھے جب گذشتہ ماہِِ جون کے آخر ہفتے میں ریڈیو پر یہ خبر سنی۔ یہ خبر سننا ایک دھچکے کے مترادف تھا۔

سندھ کے ساحلی ضلع بدین میں اپنی زمین میں کھڑے ہوئے مصطفی نے تھرڈپول ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ انہوں نے 14 ہیکٹرز پر دھان جون میں کاشت کیا ہے اور اگر ان کے علاقے میں جولائی کی آخر تک یا اگست کے پہلے ہفتے تک بارشیں نہیں ہوتی تو ان کا فصل سوکھ جائے گا۔

مشرقی سندھ کے ضلع سکھر میں سکھر بئراج کنٹرول روم کے انچارج عبدالعزیز نے کہا کہ اس سال دریائے سندھ میں سیلاب کے امکانات بہت کم ہیں، کیونکہ پاکستان میٹرولاجیکل ڈپارٹمنٹ نے اس سال مون سون کی بارشوں معمول سے کم پڑنے کی پشنگوئی کی ہے۔

مون سون بارشوں کی موسم پاکستان میں جون کے آخری ہفتے سے شروع ہوتی ہے۔ مگر، جولائی کے آخر میں کچھ بارشیں ہوئی ہیں مگر بہت کم۔ اگرپاکستان میٹرولاجیکل ڈپارٹمنٹ کی پیشنگوئی درست ثابت ہوتی ہے تودھان، کپاس اور گنے اور موسمی سبزیوں کی کاشت کے لیے پانی کی کمی واقع ہوسکتی ہے، جو اپریل اور جولائی کے درمیان کاشت کیے جاتے ہیں۔

پنجاب اور بلوچستان صوبوں کے کسان بھی بارشیں نہ ہونے یا کم ہونے کی شکایات کررہے ہیں، اور اس بات پر شدید پریشان ہیں کہ ان کے فصل سوکھ رہے ہیں۔

پنجاب صوبے کے جنوبی ضلع راجھن پور کے پنتالیس سالہ کاشتکار مہر علی کہتے ہیں کہ، "گذشتہ ماہ، مجھے ضلعی زراعت محکمے کے ایک افسر سے پتہ چلہ کہ اس دفعہ مون سون بارشیں کم پڑیں گی۔ تاہم کئ سالوں میں پہلی بار میں نے اس سال دھان اور کپاس کی کاشت جان بوجھ کر میں دیر کی ہے۔ تاکہ معاشی نقصان کم سے کم ہو۔"

انہوں نے مزید کہا کہ، "وہ تمام کسان پریشان ہیں، جہنوں نے دھان اور کپاس کی کاشت وقت پر کر رکھی ہے، کیوں کہ ان کے فصل اب بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے سوکھ رہے ہیں، جس سے کئی کسان، جو بیج اور فرٹیلائیزر مقامی دکانداروں سے ادھار پر لیتے ہیں، مقروض ہو سکتے ہیں۔"

پاکستان ایگریکلچر فورم کے چئرمین، ابراھیم مغل، کہتے کہ اگر بارشیں اگست میں بھی پڑیں تو بھی فصل کے لیے اس کو خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوگا، کیونکہ تب تک ان کے فصل سوکھ چُکے ہونگے۔

مغل نے تھرڈپول ڈاٹ نیٹ کو لاہور سے فون پر بتایا کہ مون سون بارشوں کا وقت پر، یعنے جولائی میں، ہونا فصلوں کی پیداور کے لیے نہایت ہی اہم ہوتا ہے، کونکہ اس سے پیداور بہت ہی اچھی ہوتی ہے۔ اس کے بعد والی بارشیں فصلوں کی کم پیداور کا باعث بنتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، دیر سے بارشیں مطلب کہ فصلوں کی کم پیداور۔

مون سون کی بارشیں پانی کے ذخائر اور پن بجلی کی پیداور میں اضافے کے لیے بھی بہتر ہوتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں سال بھر کی بارشوں کا 70 سے 80 فیصد مون سون کی موسم یعنی جون تا ستمبر تک ہوتی ہیں۔ تاہم اس دفعہ مون سون کی بارشوں میں کمی کی وجہ سے پانی کے ذخائر پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور پن بجلی کی پیداور بھی متاثر ہوسکتی ہے، جو اس موسم میں معمول سے بڑجاتی ہے۔

17 جون کو پاکستان میٹرولاجیکل ڈپارٹمنٹ نے ملک میں مون سون بارشوں کے متعلق ایک ایڈوائزری جاری کی تھی، جس میں یہ پیشنگوئی کی گئی تھی کہ سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے علاوقوں میں مون سون کی بارشیں معمول سے کم ہونگی اور شمالی پنجاب، خیبرپختونخواہ، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر-انتظام کشمیر میں تقریباً معمول کی بارشیں ہونگی۔

پاکستان میٹرولاجیکل ڈپارٹمنٹ نے اس ایڈوائزری میں یہ بھی کہا تھا کہ شمالی پاکستان اور اپر انڈس بئسن میں بارشیں بے ترتیب ہونگی، اور وہ اگست کے آخر میں شدید بھی ہوسکتی ہیں۔

جولائی کے تیسرے ہفتے تک مون سون کی بارشیں جنوبی پاکستان میں نے ہونے کے برابر رہی ہیں، اور شمالی پاکستان کے کچھ علاقوں میں معمول سے کم ہوئی ہیں۔ جن علاقوں میں بارش ہوئی ہے ان میں صوابی، سوات، پاراچنار، کوہاٹ، ایبٹ آباد، لاہور اور ملتان شامل ہیں۔

پاکستان میں مون سون کی بارشیں عام طور پر 255 سے لے کر 240 ملی میٹر ہوتی ہیں، مگر اس دفعہ پاکستان میٹرولاجیکل ڈپارٹمنٹ نے اس ایڈوائزری میں کہا کہ بارشیں 140اعشاریہ 9 ملی میٹر ہوگی۔

پاکستان میٹرولاجیکل ڈپارٹمنٹ کے موسمیاتی سائنسدان عظمت حیات خان کہتے ہیں کہ اس دفعہ مون سون کی بارشیں 40 سے 60 فیصد کم پڑیں گی اور کم بارشوں کی وجہ سے فصلوں کی پیداور پر، خاص کر جنوبی سندھ میں، منفی اثرات پڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں بارشوں کے کم ہونے کے ایسے 11 واقعات ہوئے ہیں۔

اس سال جون کوپاکستان میٹرولاجیکل ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل عارف محمود نے ایک الرٹ جاری کیا تھا کہ جنوبی پنجاب، جنوبی سندھ اور بلوچستان میں شدید خوشکسالی کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔

محمود نے مزید کہا کہ ان علاقوں میں کسان اپنے فصلوں کے لیے مون سون کی بارشوں پر منحصر ہوتے ہیں۔ مگر معمول سے کم بارشیں فصلوں کی پیداور پر منفی گہرے اثرات چھوڑیں گی، جس سے علاقے میں غذائی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔

غیرسرکاری تنظیم پاکستان واٹر پارٹنرشپ سے منسلک ایگرواکانومسٹ اور ماہر پانی، پرویز امیر، کہتے ہیں کہ اگر پاکستان میٹرولاجیکل ڈپارٹمنٹ کی پیشنگوئی درست ثابت ہوتی ہے تو دھان، کپاس اور گنے کے فصل بری طرح متاثر ہونگے اور اِن فصلوں کی مجموعی طور پر پیداوار میں 50 سے 60 فیصد تک کی کمی واقع ہوسکتی ہے اور ممکن ہے کہ کئی فصلوں کے اہداف حاصل نہیں ہوسکیں گے۔

جون اور جولائی میں بڑھے ہوئے درجہ حرارت اور خوشک موسم کی وجہ سے پانی ڈیموں، ندی نالوں سے بخارات کی صورت میں اُڑجاتا ہے، جس کی وجہ سے بھی پانی کا بحران شدت پکڑتا ہے۔

بین الاقوامی میٹرولاجیکل آرگینائیزیشن کے ایشیا ریجن کے لیے وائیس پریزیڈنٹ، قمرزمان چودھری کہتے ہیں مون سون بارشیں درجہ حرارت کو کم کردیں ہیں جس کی وجہ سے پانی کا بخارات کی صورت میں ضائع ہونے سے روک دیتے ہیں، اور وہ پانی کاشتکار فصلوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان میٹرولاجیکل ڈپارٹمنٹ کے سینئر موسمیاتی سائنسدان، غلام رسول، کہتے ہیں کہ جنوبی صوبہ سندھ کے تھرپارکر ضلع جس کا انڈیا کے راجستھان ریاست کے ساتھ بارڈرسے ملتا ہے، میں کم بارشوں کی وجہ سے صورتحال پیچیدہ ہونے کا خطرہ ہے۔

گذشتہ سال اس صحرائے تھرپارک ضلع میں گذشتہ دس سالوں میں بری ترین خوشک سالی کی صورتحال پیدا ہوئی تھی اور یہ لگاتار تیسری خوشک سالی تھی۔ 100 سے زائد لوگوں لقمہ اجل ہوگئے تھے اور ہزاروں لوگوں نے بھوک اور بدحالی سے بجنے کے لیے دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کی تھی۔

دریں اثنا، پاکستان میٹرولاجیکل ڈپارٹمنٹ کے عظمت حیات خان کہتے ہیں کہ اگر اس سال اس صحرائی ضلع میں اگر بارشیں کم ہوتی ہے تو غذائی اور پانی کی قلت کی صورتحال بدترین ہوجائے گی۔

تھرپارکر کے ڈپٹی کمشنر نی دعوی کی ہے کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے تھرڈپول ڈاٹ نیٹ کو فون پر بتایا کہ اس سال ضلع میں گرمی کی شدت میں اضافہ آیا ہے جس کی وجہ سے کئی کنؤوں کے پانی کی سطح میں کمی واقع ہوئی ہے۔

تاہم پانی کے ماہر پرویز امیر کہتے ہیں کہ واٹر سمارٹ فارمنگ کے جدید طریقوں کو اپنا کر کم ہوتی ہوئی بارشوں کے فصلوں پر منفی اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے، جن کا خاص مقصد کم پانی سے بھی زیادہ زرعی پیداوار حاصل کرن ہے۔

امیر نے زور دیکر کہا کہ ان جدید زرعی طریقوں کے مطلق کسانوں میں آگاہی پیداکرنا اور ان طریقوں کو اپنانے کے لیے کسانوں کو ترغیب دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سے پاکستان کوبارشوں کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے پانی کی موجودگی میں کمی کے فصلوں اور دوسرے معاشی شعبوں پر منفی اثرات سے نمٹنے میں مدد ملے گی

بشکریہ: تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ

لکھاری: سلیم شیخ