نقطہ نظر

مارچ کے بعد: کون ہوگا کون نہی؟

موجودہ سیاسی نظام تبدیلی سے گزر رہا ہے، جس کے بعد ایک مضبوط اور منظم نظام سامنے آئے گا، جس میں سارے کھلاڑی نئے ہوں گے۔

ایک پیچیدہ اور طویل کھیل شروع ہو چکا ہے۔

مارچ اور بعد کے کچھ مہینوں کے دوران پانی کی گہرائی کا اچھی طرح سے اندازہ کر لینے کے بعد اب لگتا ہے کہ ایک بڑی تبدیلی کی راہ ہموار ہو چکی ہے۔ میرے نزدیک اب ہمیں ملکی سیاسی نظام میں کچھ بنیادی اور طویل مدّتی تبدیلیوں کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔

جو سامنے نظر آرہا ہے، اس سے کہیں زیادہ ہو رہا ہے۔ اس پیچیدہ کھیل کے پاکستانی ریاست پر گہرے اثرات پڑنے والے ہیں، جو آنے والی کچھ دہائیوں کے لیے پاکستان کے مستقبل کی شکل و صورت ترتیب دیں گے۔ حالات کا جو سائیکل اس وقت چل رہا ہے، وہ نا مانوس نہیں ہے، لیکن اب پہلے سے زیادہ ایڈوانسڈ لگتا ہے۔

اس وقت موجودہ سیاسی نظام تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہا ہے، جس کے بعد ایک مضبوط اور منظم نظام سامنے آئے گا، جس میں سارے کھلاڑی نئے ہوں گے۔

سادہ الفاظ میں کہا جائے، تو اگلے 20 سے 30 سالوں کی ضروریات کے حساب سے نئی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں گی۔

تبدیلی کی جو امید 2013 کے عام انتخابات سے وابستہ تھی، وہ ٹوٹ چکی۔ ایک امید تھی کہ موجودہ سیاسی جماعتیں اپنی اصلاح کریں گی، اپنے لیڈروں کی تربیت کریں گی، اور جمہوری نظام کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گی، لیکن یہ سب کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔

جمہوری نظام مضبوط کرنے کے بجائے سیاسی جماعتوں نے ملک کی ضروریات کو پس پردہ پھینک کر وہی طاقت کی سیاست شروع کر دی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے وہی روایتی رویہ اپنایا کہ آپ اگر پیدائشی لیڈر نہیں، تو اب آپ لیڈر نہیں بن سکتے۔ جبکہ تحریک انصاف ایک مضبوط سیاسی طاقت بن کر ابھرنے کے بجائے صرف ایک شخصیت تک ہی محدود رہی۔

متحدہ قومی موومنٹ کی بات کی جائے تو وہ کچھ طاقتوں کا مہرہ ہے، اور ویسی ہی رہے گی، اس لیے اس سے جمہوری آئیڈیلز کی توقع رکھنا فضول ہے۔

اس موقع پر 'طاقتوں' نے وہی کیا، جو انہوں نے 80 کی دہائی کی شروعات میں کیا تھا، یعنی پاکستان میں مستقبل کی سیاست کو بنیادی طور پر تبدیل کر دینا۔

اس کام کا طریقہ کار بہت آسان تھا:

حکومت کی کارکردگی کا 12 ماہ بعد جائزہ لیا جائے۔ اگر سیاستدانوں کی موجودہ کھیپ اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتی ہے، تو سب ایسے ہی چلنے دیا جائے، ورنہ 30 ماہ کی ٹائم لمٹ پلان پر عمل کیا جائے۔

اس کیس میں مجھے لگتا ہے، کہ 30 ماہ کی ٹائم لمٹ کا فیصلہ کر لیا گیا تھا. میں نے جولائی میں لکھا تھا کہ ہمارے پاس صرف 18 سے 24 ماہ ہیں، جس کے بعد اس پوری بساط کو بنیادی تبدیلیاں لانے کے لیے لپیٹ دیا جائے گا۔ اور میں نے یہ اندازہ اسی 30 ماہ کی ٹائم لمٹ کے حساب سے لگایا تھا۔

لیکن اس سے پہلے کہ ہم اس بات پر بحث کریں کہ ہم کس طرح کی تبدیلی کی طرف گامزن ہیں، میرا خیال ہے کہ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم اس موڑ پر کیسے اور کیوں آ پہنچے ہیں۔

ہم یہاں صرف اور صرف مسلم لیگ ن کی نا اہل حکمرانی کی وجہ سے آئے ہیں۔

میں نے مارچ سے اب تک مسلسل لکھا ہے کہ مسلم لیگ ن خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہی ہے۔ سنگین سیاسی مسئلوں سے چشم پوشی کر کے اس حکومت نے اپنی تمام تر توجہ معیشت اور انفراسٹرکچر پر رکھی۔

قوت فیصلہ نا ہونے کی سب سے بڑی مثال تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن شروع کرنے میں مہینوں کی تاخیر کرنا ہے۔ جب ہم مسلم لیگ ن کے اندرونی اختلافات کو بھی شامل حال کر کے دیکھیں، تو کہانی خود بخود سامنے آجاتی ہے۔

تحریک انصاف نے اپنی تمام توجہ اس صوبے جہاں سے وہ کامیاب ہوئی تھی، سے ہٹا کر اس صوبے پر مرکوز رکھی، جہاں اس کو شکست ہوئی۔ معلوم نہیں یہ کس وجہ سے ہے، پر شاید پی ٹی آئی میں کچھ ایسے لوگ ہیں، جنہوں نے عمران خان کو یقین دلایا کہ انہیں ہی وزیر اعظم ہونا چاہیے، حالانکہ سب جانتے ہیں، کہ اگر تمام متنازعہ حلقے عمران خان کے حصّے میں آجائیں، پھر بھی وہ وزیر اعظم نہں بن پائیں گے۔

جبکہ پی پی پی صرف سندھ اور واشنگٹن ڈی سی تک محدود رہتے ہوئے بینظیر بھٹو کے بچوں کو سیاست میں لانچ کرنے کی تیاری میں مصروف رہی۔

اس سب کے دوران 'طاقتوں' نے اپنے اوزار درست کرنے شروع کر دیے۔عمران خان اور طاہر القادری نے اتنی ہلچل برپا کی کہ حکومت کو کمزور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ دونوں کسی سنجیدہ سیاسی کردار کے امیدوار نہیں، بلکہ صرف کام مکمّل کرنے والے مہرے ہیں۔

مثالی طور پر یہ دونوں قوّتیں حکومت کو بیک فٹ پر دھکیل دینے میں کامیاب ہوجاتیں، جس میں انہیں تقریباً 6 ماہ لگنے تھے۔

اس کے بعد مسئلے کو حل کرنے اور ایک متحدہ حکومت بنانے کے لیے بحث کی جاتی۔ یہ بحث کامیاب نہ ہوتی، اور مسئلہ حل نہ ہونے کے باعث عوامی فرسٹریشن اپنی انتہا کو پہنچ جاتی، اور ایک مستحکم حکومت کے قیام کے مطالبے زور پکڑنے لگتے۔

آئیڈیل صورتحال میں یہ سب کچھ ہوتا، لیکن ابھی آئیڈیل صورتحال کی غیر موجودگی میں بھی کچھ زیادہ الگ نہیں ہوا ہے، یعنی عمران خان اور طاہر القادری کی ہلچل چیزوں کو اسی مقام تک لانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

یہاں پر اس بات کا دھیان رکھنا بہت اہم ہے، کہ اصل جنگ پنجاب کو ایک جماعت کے قبضے سے نکال کر 80 کی دہائی کے اواخر، اور 90 کی طرح بنانے کی ہے۔ جس سے اپوزیشن جماعتوں کو کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا، اور ایک قومی اور مستحکم حکومت کا قیام ممکن ہوگا۔

ایسی حکومت میں غالب اکثریت ٹیکنوکریٹس کی ہوگی، اور یہی مستقبل کی سیاست کے قوائد و ضوابط طے کرے گی۔ اس کے بعد سیاست میں نئے چہروں کی آمد ہوگی۔

کچھ وقت کے بعد نواز شریف، عمران خان، اور آصف زرداری اتنے عمر رسیدہ ہو چکے ہوں گے کہ وہ صرف اپنے ماضی کی ایک جھلک بن کر رہ جائیں گے۔

نئے لوگ اپنی نئی سیاسی وابستگیوں کے ساتھ سامنے آئیں گے، بالکل 80 کی دہائی کی طرح، اور پھر اگلے 2 سے 3 عشروں تک ملک کی قیادت کریں گے، جبکہ کوئی شریف، خان، قادری، بھٹو یا چوہدری کامیاب ہونے میں کامیاب نہیں ہوگا۔

عمران خان بہت دفعہ ناکامی کا منہہ دیکھیں گے، شریف اور بھٹو بہت کوششیں کریں گے، چوہدری مونس الہی کو سامنے لائیں گے، جبکہ قادری واپس کینیڈا چلے جائیں گے۔

یہ وہ مقام ہے، جہاں حالات اب جا رہے ہیں۔

طاقتیں نہ ہی اقتدار پر قبضہ کریں گی، اور نہ ہی نظام کو چھوڑیں گی۔ جو لوگ ایک سیدھے حل کی امید کر رہے ہیں، وہ ماضی میں جی رہے ہیں اور انہیں اپنے آپ کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

میں نے بھی کبھی امید کی تھی، کہ ہماری سیاسی جماعتیں پروفیشنل طور پر چلنے والی آرگنائزیشنز بن جائیں، نہ کہ خاندانی طور پر چلنے والے کاروبار، پر میری امید حقائق پر مبنی نہیں تھی۔

اگر ایسا ہوگیا ہوتا تو ہم اس وقت اس تبدیلی کے مرحلے میں داخل نہ ہو رہے ہوتے۔

پاکستان کو محبان وطن کی ضرورت ہے، پارٹی محبان کی نہیں۔

پاکستان کو جمہوریت چاہیے، ایک بندے کی حکمرانی نہیں۔

لیکن سب سے زیادہ، ہم سب کو گورننس کی ضرورت ہے، نا کہ گورننس کے وعدوں کی۔

تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے، اور ہم اس بار ایک نئے نتیجے کی امید کر رہے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں


عدنان رسول جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر adnanrasool@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

عدنان رسول

لکھاری جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر adnanrasool@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔