نقطہ نظر

انقلابی الزامات اور انتخابات

اب تک تمام الزامات محض الزامات ہی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ خان صاحب الزامات کے ساتھ ساتھ ثبوت بھی پیش کر دیتے

22 جولائی کو چھپنے والے میرے بے لاگ بلاگ "تحریک انصاف سے معزرت کے ساتھ" میں عمران خان کے مطلوبہ چار حلقوں کا پوسٹمارٹم کیا گیا تھا۔ اس پر ملنے والے نفرت بھرے فِیڈ بیک اور انصافیوں کی بے حد تزلیل پر حاضرِ خدمت ہے 14 اگست سے تین روز قبل خان صاحب کی جانب سے لگائے گئے الزامات کا رنگین سینما سکوپ تازہ تازہ پوسٹمارٹم۔

اسلام آباد کے بنی گالا میں اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکمرانوں کے پاس جعلی مینڈیٹ ہے اور سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ریٹائرڈ افتخار محمد چوہدری نواز لیگ کے اوپننگ بیٹسمین تھے۔

سابق چیف جسٹس کے بارے میں خان صاحب کا مزید کہنا تھا کہ میر حاصل بزنجو کا خود یہ ماننا ہے کہ سابق چیف جسٹس کے کہنے پر ہی ان کے بیٹے کو بلوچستان انویسٹمنٹ بورڈ کا وائس چیئرمین تعینات کیا گیا۔

خان صاحب کے الزامات کے خلاف پہلے ہی سابق چیف جسٹس ان پر 20 بلین کے ہرجانے کا دعوی کرچکے ہیں. فیصلہ کیا آتا ہے اس کا انتظار کرنا ہی بہتر ہے، کیونکہ یہ لکھاری اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ دورانِ سماعت مقدمات کے بارے میں رائے کا اظہار کرے۔

میر حاصل بزنجو سے متعلق بیان پر جب میڈیا کی جانب سے بزنجو صاحب سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ سابق چیف جسٹس کی بحالی کے بعد نا تو کبھی ان سے ملے ہیں اور نا ہی کبھی ان سے بات ہوئی ہے۔ لہزٰا خان صاحب کی جانب سے لگائے گئے اس الزام کی حقیقت کیا ہے۔ یہ صرف وہ خود ہی بتا سکتے ہیں۔

خان صاحب کی جانب سے سابق جج سپریم کورٹ جج جسٹس رمدے پر الزام لگاتے ہوئے کہا گیا کہ جسٹس رمدے نے ریٹرننگ آفیسرز کو اپنے ہاں ظہرانے پر مدعو کیا اور اس ظہرانے کے مہمان خصوصی جسٹس افتخار چوہدری تھے۔ خان صاحب نے سابق چیف جسٹس پر مزید الزام لگایا کہ انھوں نے آر اوز سے کہا کہ نواز شریف ہی بہترین آپشن ہیں۔

خان صاحب نے جسٹس رمدے پر مزید الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ الیکشن کے دن نواز شریف کی وکٹری سپیچ کے پیچھے بھی جسٹس رمدے کا ہاتھ تھا تا کے وہ آر اوز پر اثر انداز ہو سکیں۔

خان صاحب کے مطابق جسٹس رمدے کی ان تمام کاوشوں کے بدلے میں ان کے ایک بیٹے کو ایڈووکیٹ جنرل بنایا گیا اور ایک بیٹے کو ٹوبہ ٹیک سنگھ سے رکن قومی اسمبلی منتخب کروایا گیا۔ اس کے علاوہ ان کی بھانجی کو عورتوں کی نشست پر بھی منتخب کروایا گیا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ خان صاحب کی جانب سے پہلے الزام لگایا گیا تھا کہ نواز شریف کی وکٹری سپیچ کے پیچھے جنگ گروپ تھا، لیکن اب ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر خان صاحب اپنے دعووں سے مکرتے ہوئے اب جسٹس رمدے پر وہی الزام لگا رہے ہیں۔

جسٹس رمدے نے عمران خان کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے جواب میں کہا کہ ایک آدمی ان الزامات پر صرف ہنس ہی سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے الزامات عمران خان جیسے آدمی کو سوٹ نہیں کرتے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبائی الیکشن کمیشن کے ساتھ سپریم کورٹ کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اور یہ ہائیکورٹس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ لوئر کورٹس کی نگرانی کریں۔

آر اوز کے ظہرانے سے متعلق جسٹس رمدے کا کہنا تھا کہ عمران خان ایک بھی آر او کا نام بتا دیں جس کو انہوں نے کھانا کھلایا ہو۔

پریس کانفرنس میں خان صاحب نے الزام لگایا کہ انتخابات میں دھاندلی کے پیچھے چیف جسٹس (ریٹائرڈ) افتخار چوہدری، جسٹس (ریٹائرڈ) خلیل الرحمان رمدے کے علاوہ سابق نگراں وزیر اعلٰی پنجاب نجم سیٹھی، جسٹس (ریٹائرڈ) ریاض کیانی اور انور محبوب بھی شامل تھے۔

ان الزامات کے بعد جب میڈیا نے نجم سیٹھی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کے نگراں حکومت میں رد و بدل پر شریف برادران ان سے ناراض ہوئے تھے اور ان کا ایک روپیہ بھی معاف نہیں کیا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پی سی بی کی قیادت ملنا نوازنا نہیں تھا بلکہ یہ تو انھیں سزا دی گئی تھی۔

سیٹھی صاحب کے جوابات کے بعد اب تو خُدا ہی بہتر جانتا ہے کے کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ۔ خیر آگے چلئے……..

جسٹس (ریٹائرڈ) ریاض کیانی نے خان صاحب کے الزامات کو رد کرتے ہوئے میڈیا سے کہا کہ ان کی مسلم لیگ نواز سے نا وابستگی ہے اور نا ہی وہ کبھی ان کے مشیر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان نے دھاندلی سے متعلق سفید جھوٹ بولا۔

تحریک انصاف کے سربراہ کی جانب سے نواز لیگ پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ نواز لیگ نے الیکشن کمیشن کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انور محبوب کو سندھ سے ٹرانسفر کر کے پنجاب کا چیف الیکشن کمشنر تعینات کیا۔ جنہوں نے اوپر سے احکامات ملنے پر پنجاب کے 5 ڈویژنز کے 98 حلقوں کے لئے بیلٹ پیپر پاکستان پرنٹنگ پریس کی بجائے کہیں اور سے چھپوائے۔

خان صاحب کی جانب سے نواز لیگ پر الزام لگایا گیا کہ نواز لیگ نے پنجاب کے 5 ڈویژنز میں دھاندلی کی ہے۔ جن میں لاہور، راولپنڈی، ملتان، گجرانوالہ اور فیصل آباد شامل ہے۔

الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ دیکھی جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ پنجاب کی 148 سیٹوں میں سے تحریک انصاف صرف 7 حلقوں میں کامیابی حاصل کرسکی اور ان 7 سیٹوں میں سے 6 سیٹیں وہ ہیں جو ان 5 ڈویژنز میں آتی ہیں، جہاں خان صاحب کا کہنا ہے کے نواز لیگ نے دھاندلی کی ہے۔ شرم آنی چاہیے نواز لیگ کو جس نے ان 5 ڈویژنز میں دھاندلی بھی کی اور انہی ڈویژنز سے تحریک انصاف 6 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔

اگر خان صاحب کے اس الزام میں ذرا سی بھی سچائی ہے تو اس کی فوراً تحقیقات ہونی چاہیے اور اگر خان صاحب کا یہ الزام سچ ثابت ہوگیا تو پورے انتخابات کی کریڈیبیلیٹی مشکوک ہوجائیگی۔

لیکن، اب تک تمام الزامات محض الزامات ہی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ خان صاحب الزامات کے ساتھ ساتھ ثبوت بھی پیش کر دیتے کیونکہ محض الزامات کی بنیاد پر کسی جمہوری حکومت کو گھر نہیں بھیجا جا سکتا۔

جو بھی کہیں۔ خان صاحب کو جس نے بھی یہ ساری کہانی گھڑ کر دی۔ اس نے خوب کارنامہ انجام دیا، ہمارا اُس ذہین انصافیے کو مشورہ ہوگا کہ لانگ مارچ سے فارغ ہو کر فلموں کے لئے کہانیاں لکھیں۔ کیونکہ کہانی میں سسپنس بھی تھا، تھرل بھی اور ایکشن بھی۔ بس کمی تھی تو رومینس کی جس کے خان صاحب بے تاج بادشاہ گردانے جاتے ہیں۔


بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے۔ مگر لکھاری اخراجِ جزبات، خیالات و تجزیات کے لئے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتا ہے۔

nasim.naveed@gmail.com

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

nasim.naveed@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔