انقلاب کی چڑیا
انقلاب کی آمد آمد ہے۔ ہر بوڑھے، بچے، نوجوان کے لبوں پر انقلاب کا نعر ہ اور ولولہ موجود ہے۔ اس ہلچل کے دوران یہ سوال پوچھنا تو کسی کو یاد ہی نہیں رہا کہ آخر انقلاب ہے کس چڑیا کا نام؟
جمہوری اور آمرانہ انقلاب کے خدوخال، ’ٹوپی ڈرامے‘ سے کیسے مختلف ہوتے ہیں؟
خونی یا پرامن انقلاب کیسے برپا ہوتے ہیں؟
کیا ایک جمہوری حکومت کی روانگی انقلاب کہلاتی ہے یا ’دھڑن تختہ‘؟
سر پر کفن باندھ کر راہنماؤں کی خاطر جان دینا انقلاب ہے یا کسی وسیع تر مفاد کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرنا انقلاب ہے؟
ریاست کے کارندوں (پولیس، رینجرز) کو جنگ کا ایندھن سمجھنا انقلاب کا تقاضا ہے یا کم عقلی کی نشانی؟
سچ پوچھیں تو ہمارے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں۔
فرانس، روس، چین اور ایران کے انقلابات گزشتہ دو صدیوں میں پیش آنے والے مشہور واقعات ہیں۔ فرانس میں انقلاب نے جابرانہ بادشاہت اور جاگیر داروں کی اجارہ داری کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا.
روس میں زار کی حکمرانی اور باشندوں کی خستہ حالی کے باعث بولشویک انقلاب نے ملک کو تبدیلی کی راہ پر گامزن کیا، چین میں ماؤ زے تنگ نے چھہ ہزار میل لانگ مارچ کے بعد کمیونسٹ جماعت کی قیادت سنبھالی اور کچھ برس بعد حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے.
ایران میں رضا شاہ پہلوی کے خلا ف ’بازار‘ اور بائیں بازو کے سیاسی ورکر اٹھ کھڑے ہوئے اور حکومت چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔
ان انقلابات میں بہت کم قدریں مشترک ہیں البتہ انقلاب کو عام طور پر ایک سیاسی اور معاشرتی نظام کی جگہ ایک دوسرے نظام کا قیام سمجھا جاتا ہے۔
انقلاب کا نعرہ اور تبدیلی کا خواب ہر ملک کے نوجوان دیکھتے ہیں اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اصل تبدیلی انقلاب کے بعد شروع ہوتی ہے۔
فرانس میں انقلاب برپا ہونے کے کئی سال بعد تک قتل و غارت گری معمول رہی اور نپولین کی آمد پر حالات کچھ بہتر ہوئے۔ روس میں لینن کے انتقال کے بعد سٹالن نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور نظریاتی اخلاص کے نام پر لاکھوں لوگوں کو قتل کروا دیا۔
ماؤ کی پالیسیوں نے 1958ء سے 1962ء کے دوران ایک اندازے کے مطابق ساڑھے چار کروڑ افراد کو قحط کے ہاتھوں مرنے پر مجبور کیا۔
ایران میں بادشاہت کی جگہ ملاؤں کی حکومت نے لے لی اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ تھا جس کا انتظار، یہ وہ سحر تو نہیں …
ہماری عمر کے بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ پاکستان میں پہلے بھی ایک ’انقلاب‘ آیا تھا۔ 1958ء کے بعد ایک دہائی تک ستائیس (27) اکتوبر کے روز یوم انقلاب منایا جاتا تھا، سکولوں اور دفتروں میں عام تعطیل ہوا کرتی تھی اور فوجی پریڈ ہوا کرتی تھی۔
پاکستان بننے کے بعد سیاست دانوں کی باہمی چپقلش اور افسر شاہی / فوج گٹھ جوڑ کے باعث پہلے اسکندر مرزا اور ان کے بیس دن بعد ایوب خان (جو اپنے آپ کو فیلڈ مارشل لکھا اور سمجھا کرتے تھے) نے حکومت سنبھالی۔ اس ’انقلاب‘ کی یاد میں ہر سال 'یوم انقلاب' منایا جاتا رہا۔ اس طرز کے انقلاب ایوب خان کے بعد یحییٰ خان، ضیاء اور مشرف کی شکل میں ہم پر مسلط ہوئے۔
موجودہ ’انقلاب‘ کے راہنماؤں کا حال بھی سن لیجیے:
کئی سال پہلے تک شریف خاندان کی قربت میں رہنے والے قادری صاحب اپنے رنگارنگ خوابوں اور انکی تعبیروں کی پیش گوئی کرنے کے باعث مشہور تھے۔ موصوف نے کئی حکومتوں اور حکمرانوں کے آنے اور جانے کی پیش گوئیاں کیں جو کبھی درست ثابت نہ ہوئیں۔
ترقی پسند ملائیت کی آڑ میں حضرت نے لاکھوں مریدوں کو گرویدہ بنایا اور انکے ادارے نے ملک بھر میں سکول اور کالج قائم کیے۔ میلاد کی محفلوں کو وجہء شہرت بنانے کا کام سب سے پہلے موصوف نے ہی شروع کیا۔
مشرف دور میں انہیں وزارت عظمیٰ کے سبز باغ دکھائے گئے لیکن جلد ہی اسٹیبلشمنٹ والوں کو عقل آ گئی اور اس حماقت سے گریز کیا گیا۔ اس دوران قادری صاحب کینیڈا پہنچے اور وہاں سے اپنے مریدین کے دل گرماتے رہے۔
زمانے کی رو بدلی تو قادری صاحب نے دہشت گردی کے خلاف ایک کتاب تحریر کر دی، جس کو دہشت گردوں نے درخور اعتنا تک نہیں سمجھا لیکن عالمی سطح پر مصنف کی واہ واہ ہو گئی۔
جنوری 2013ء میں پاکستان واپس آئے اور جمہوری حکومت کے خلاف قوم کو اکسانے کا کام سنبھالا۔ اپنے مریدین کو سخت سردی کی حالت میں ٹھٹھرتا چھوڑ کر جناب خود ایک عالیشان کنٹینر میں براجمان ہوئے اور سلطان راہی سٹائل میں حکومت کو دھمکیاں دیتے رہے۔
جب سپریم کورٹ نے دہری شہریت پر ان سے کچھ سوال جواب کرنے چاہے تو قادری صاحب واپس کینیڈا سدھار گئے اور ان کی جماعت نے اس سال ہونے والے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔
اب وہ ایک دفعہ پھر اپنی رنگ برنگ ٹوپیوں سمیت انقلاب کے نعرے لگاتے لاہور میں براجمان ہیں۔ دو ماہ قبل ماڈل ٹاؤن میں انکے کارکنان کے اشتعال دلانے پر پولیس اور مقامی انتظامیہ نے جو ناقص کارکردگی دکھائی، اس نے قادری صاحب کو راتوں رات شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ خونی انقلاب، غزہ، کربلا اور شہادت کی گردان کرنے والے قادری صاحب انگریزی میں بیان کچھ اور دیتے ہیں اور اردو میں انکا قبلہ کسی اور طرف ہوتا ہے۔
یوم آزادی کے روز اسلام آباد پر ’یلغار‘ کرنے والوں کی صف میں عمران خان کی تحریک انصاف بھی شامل ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں صوبائی حکومت کے حصول سے شاد نہ ہونے والے خان صاحب بہر صورت وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔
خان صاحب اور انکے پرجوش حمایتی زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے فیصلے کرتے رہے، اور انتخابات میں ناکامی کا رونا ابھی تک جاری ہے۔
چار حلقوں میں دوبارہ انتخاب کی فرمائش کے بعد اب خان صاحب وزیر اعظم کا استعفیٰ مانگ رہے ہیں اور افسر شاہی کی حکومت بنوانا چاہتے ہیں۔ انتخابات میں ناکامی انہیں ہضم نہیں ہو پائی اور ہر تیسرے دن انکے کارندے کسی نئے فریق پر دھاندلی کا الزام لگا تے ہیں۔
افتخار چوہدری، نجم سیٹھی، ریٹرنگ افسران، جسٹس رمدے، جنرل کیانی، خواجہ سعد رفیق، امریکہ، سعودی عرب، سی آئی اے اور بہت سے نامعلوم افراد پر الزام تراشی کی جا چکی ہے اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
گجرات کے چوہدری برادران اور پنڈی کے بدنام زمانہ شیخ صاحب، عمران خان اور قادری صاحب کو شہہ دینے میں مصروف ہیں۔ قیاس ہے کہ ان پتلیوں کو ہلانے والے اسلام آباد کی ’شہہ رگ‘ سے بھی زیادہ نزدیک ہیں۔
ان طالع آزماؤں کی قیادت میں کونسا انقلاب اور کیسا انقلاب؟
اگر شریف حکومت کسی طرح مستعفی ہو بھی جاتی ہے تو پھر کیا ہوگا؟ اس بات کی گارنٹی کون دے سکتا ہے کہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں عمران خان کی جماعت واضح اکثریت حاصل کر سکے گی؟ کیا یہ سلسلہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے تک جاری رہے گا؟ بخشو بی بلی، چوہا لنڈورا ہی بھلا!
لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں
پڑھیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔