کنیریا تاحیات پابندی کیخلاف قانونی جنگ ہار گئے
لندن : پاکستان کے سابق کرکٹر ڈنیش کنیریا کی انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کی جانب سے عائد تاحیات پابندی کے خلاف آخری قانونی درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔
دنیش کنیریا پر یہ پابندی کاﺅنٹی ٹیم ایسکسز کی جانب سے کھیلتے ہوئے مبینہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل پر عائد کی گئی تھی، اور کہا گیا تھا کہ پاکستانی کرکٹر نے اپنے انگلش ساتھی مارون ویسٹ فیلڈ کے ساتھ ڈرہم کے خلاف 2010ءکے ایک میچ میں جان بوجھ کر اضافی رنز دیئے تھے۔
برطانوی اپیلیٹ کورٹ کے جج اسٹینلے برٹن نے کنیریا کی اپیل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ای سی بی کی پابندی کے خلاف درخواست میرٹ سے ہٹ کر ہے۔
برطانوی جج نے مزید کہا کہ کنیریا جو اس پابندی کے خاتمے کے لیے کئی کوششیں کرچکے ہیں، اب اس فیصلے پر نظرثانی کے اہل نہیں رہے۔
اس فیصلے کا مطلب ہے کہ کنیریا کے لیے زندگی بھر کی پابندی کے خلاف انگلینڈ میں قانونی آپشنز ختم ہوگئے ہیں ، جس کی توثیق انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے دیگر اراکین نے بھی کی ہے جس کے بعد اب 33 سالہ لیگ اسپنر دنیا بھر میں کہیں بھی کرکٹ نہیں کھیل سکتے۔
ای سی بی چیئرمین جائلز کلارک نے عدالتی فیصلے پر اپنا ردعمل ایک بیان میں ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم کنیریا کی درخواست مسترد کئے جانے کے فیصلے کو سراہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا "اب وقت ہے کہ کنیریا اپنی کرپٹ سرگرمیوں کو سامنے لائین اور پاکستانی پرستاروں سمیت دیگر افراد کو اپنی معصومیت کے خالی ڈبے سے متاثر کرنے کی کوشش ترک کردیں"۔
پی سی بی کی معافی
پی سی بی کا کہنا ہے کہ " ہم ایک بار پھر عوامی طور پر کنیریا کے ماضی کے اقدامات پر معذرت کرتے ہیں اور اسے پاکستان کرکٹ بورڈ کے اینٹی کرپشن اقدامات اور برصغیر میں پولیس و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کے عمل کا حصہ بنانا چاہتے ہیں تاکہ کرکٹ کرپشن کے بنیادی ذرائع کی روک تھام کی جاسکے"۔
مئی میں برطانوی ہائی کورٹ نے کنیریا کی پابندی کے خلاف اپیل کو مسترد کیا تھا، جبکہ گزشتہ سال جولائی میں ای سی بی ڈسپلنری پینل میں اپیل مسترد کئے جانے کے بعد اس پابندی کا اطلاق آئی سی سی نے دنیا بھر میں کردیا تھا۔
اس پابندی کے باوجود اپریل میں امریکی علاقے ہوسٹن میں ٹی 20 میچز کی سیریز میں کنیریا کی شرکت پر پی سی بی نے سخت نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات بھی کرائی تھی۔
دنیش کنیریا کے علاوہ تین دیگر پاکستانی کھلاڑیوں سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کو بھی 2010ءکے ایک الگ اسپاٹ فکسنگ کیس میں پانچ، پانچ سال پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔