پاکستان

اسلام آباد کو آج رات سیل کیے جانے کا امکان

کیپیٹل پولیس وفاقی دارالحکومت کو منگل کی رات سے سیل کرنے پر غور کررہی ہے۔

اسلام آباد: کیپیٹل پولیس وفاقی دارالحکومت کو منگل کی رات سے سیل کرنے پر غور کررہی ہے۔

ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ منگل کی رات سے دارالحکومت کے 70 فیصد داخلی و خارجی راستے بند کردیے جائیں گے اور صرف چھوٹی گاڑیوں کو ہی شہر میں داخلے کی اجازت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے لوگوں کی نگرانی کرنا آسان ہوجائے گا۔

وفاقی دارالحکومت میں پنجاب پولیس کے 5000 اور آزاد جموں و کشمیر کے 1000 پولیس اہلکار موجود ہوں گے جبکہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کے بھی 3000 ہزار جوان اسلام آباد میں مارچ کے شرکاء کو روکنے کے لیے دستیاب ہوں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ریڈ زون کا ریڈیو پاکستان کی طرف سے داخلی راستہ بند کردیا گیا ہے اور لوگ اس ہائی سیکورٹی ایریا میں کنونشن سینٹر یا سیکریٹریٹ کی طرف سے ہی داخل ہوسکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم فضلِ حق روڈ سے شاہراہ دستور کے لیے راستہ کھولنے پر غور کررہے ہیں تاکہ یہاں سے وی آئی پی موومنٹس کو جشن آزادی کی تقاریب کے لیے گزارا جاسکے۔

دوسری جانب وفاقی دارالحکومت کے مختلف مقامات پر سیکورٹی کیمروں کو بھی نصب کیا جارہا ہے تاکہ لوگوں کی موومنٹ اور دہشت گردوں پر نگاہ رکھی جاسکے۔

ایک کیمرے کو زیرو پوائنٹ انٹرچینگ پر نصب کیا گیا ہے جس سے ارد گرد کے تقریباً تمام علاقے پر نظر رکھی جاسکے گی۔


پولیس حکومتی پالیسی پر الجھن کا شکار


پولیس حکومت کی پالیسی پر الجھن کا شکار ہے کہ وہ 'انقلاب' اور 'آزادی' مارچ کے شرکاء کو اسلام آباد میں داخل ہونے کی اجازت دے گی یا نہیں۔

تاہم راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ نے تجویز پیش کی ہے کہ شرکاء کو ان کے اپنے ضلعوں میں ہی روک دیا جائے ورنہ پولیس کے لیے انہیں اسلام آباد پہنچنے سے روکنا ممکن نہیں ہوگا۔

اس سے قبل حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں اور ان کی قیادت کو اسلام آباد میں مارچ کرنے کی اجازت دے دی جائے گی اور عوامی تحریک کو مارچ کرنے سے روکا جائے گا۔

تاہم صورت حال اس وقت تبدیل ہوگئی جب عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اعلان کیا کہ 'انقلاب' مارچ تحریک انصاف کے 'آزادی' مارچ کے ساتھ ہوگا۔

ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مارچ ساتھ ہونے کی صورت میں پولیس کے لیے یہ ناممکن ہوگا کہ وہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنان کو شناخت کرے۔

ایک اور پولیس افسر نے کہا کہ حکومت اپنی پالیسی میں واضح نہیں ہے کہ مارچز کے شرکاء سے کس طرح نمٹہ جائے۔

'کبھی وہ کہتے ہیں عوامی تحریک کے کارکنوں کو اسلام آباد نہ آنے دیا جائے، پھر کہتے ہیں کہ انہیں اجازت دے دی جائے۔'

دوسری جانب پولیس نے شرکاء کو اسلام آباد داخل ہونے سے روکنے کے لیے منصوبہ بندی تیار کرلی ہے جس کے تحت راولپنڈی میں 10000 پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا جائے گا۔

حفاظتی اقدامات کے تحت وفاقی دارالحکومت کے 70 داخلی راستوں کو کنٹینروں کے ذریعے بند کیا جائے گا جن میں مٹی کی بوریاں بھری ہوئی ہوں گی۔

ان 70 داخلی راستوں میں سے 36 راولپنڈی، نو اٹک، پانچ جہلم اور چار چکوال سے نکلتے ہیں۔

سیکورٹی بڑھانے کے لیے اضافی پولیس دستے بھی راولپنڈی پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔ 4000 اضافی پولیس اہلکاروں میں سے 600 ریلوے پولیس، 800 پنجاب کانسٹبلری، سہالہ پولیس کالج اور دیگر ضلعوں سے بلائے گئے ہیں۔

پولیس کا اٹک کی جانب خاص فوکس ہوگا کیوں کہ اس کی سرحد خیبر پختونخوا سے ملتی ہے جہاں کی حکومت تحریک انصاف کے کارکنوں کو پوری سپورٹ فراہم کرے گی۔

ہارو برج، مارگلہ، ترنون اور تمام انٹرچینجس کو مکمل طور پر سیل کردیا جائے گا۔