تحریک انصاف عام آدمی پارٹی سے کیا سیکھ سکتی ہے؟
انڈیا کی سیاست میں عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کا عروج حیران کن تھا۔ اپنے قیام کے کچھ ہی مہینوں بعد دہلی کے مقامی انتخابات میں اس نے حکمران جماعت کانگریس اور اپنی سخت مخالف جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو شکست سے دوچار کیا۔
اگرچہ کہ انتخابات مقامی تھے، اور دہلی ریاست کا درجہ نہیں رکھتا، لیکن پھر بھی عام آدمی پارٹی کی کامیابی نے عوام میں امید کی ایک نئی رمق پیدا کی، جو عرصہ دراز سے کسی تیسرے آپشن کے منتظر تھے۔
بالکل اسی طرح، جس طرح پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف، پی پی پی اور پی ایم ایل ن کے درمیان پستے ہوئے ووٹروں کے لیے امید کی ایک کرن بن کر ابھری۔
اپنی پہلی کامیابی کے بعد عام آدمی پارٹی کے حامیوں نے عام انتخابات کے لیے نہایت پرجوش انداز میں بھارت کی گلیوں اور میڈیا پر پارٹی کے حق میں تحریک چلائی۔ پارٹی کے کارکنان ولولے سے بھرپور، جذبے سے سرشار، اور پارٹی کے کرپشن ختم کرنے کے نظریے پر پوری طرح یقین رکھے ہوئے تھے۔ ان کا نظریہ یہی تھا کہ انڈیا میں تبدیلی تب تک نہیں آئے گی، جب تک عوام کی جانب سے "صادق اور امین" لوگوں کو منتخب نہیں کیا جاتا۔ یہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں سے رتی برابر بھی مختلف نہیں، جن کا یہی موقف ہے کہ ملک کے سیاستدانوں کے اخلاقی طور پر مضبوط ہوئے بغیر پاکستان کے مسائل کا حل ممکن نہیں۔
میں نے گزشتہ جنوری میں، جب عام آدمی پارٹی دہلی میں اپنے اقتدار کے بیسویں روز کے قریب تھی، اسی اخبار میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں پی ٹی آئی اور اے اے پی کا موازنہ کیا تھا۔ اس وقت عام آدمی پارٹی کی کارکردگی روزانہ اخباروں میں شہ سرخیاں بناتی جا رہی تھی۔ اپنی اخلاقی قدروں پر قائم رہتے ہوئے پارٹی نے اس وقت حکومت سے استعفیٰ دے دیا، جب اس کے پیش کیے ہوئے کرپشن کے خاتمے کے بل کی منظوری میں دوسری جماعتوں کی جانب سے روڑے اٹکائے گئے۔
پارٹی کا استعفیٰ اپریل میں شروع ہونے والی عام انتخابات کے مہم کے بہت نزدیک تھا۔ پارٹی نے شاید یہ سوچا تھا کہ اس نے درست پتہ کھیل کر ہندوستان کے ووٹرز کے دل جیت لیے ہیں، اور اب وہ مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے، یا کم از کم اتنا ضرور ہو گا، کہ دہلی میں کیے گئے کارناموں اور دی گئی قربانی کی بنا پر اسے عام انتخابات میں ایک مضبوط پوزیشن حاصل ہوگی۔
پر اے اے پی مکمّل طور پر غلط ثابت ہوئی۔
سیاسی میدان میں کیے گئے دلیری کے اس مظاہرے کو کسی عوامیت پسند جماعت کی اب تک کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا جا سکتا ہے۔ پارٹی نے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری، جبکہ پارٹی کے لیڈر اروند کیجریوال کو ایک رکشا ڈرائیور کی جانب سے الیکشن ریلی کے دوران طمانچہ رسید کیا گیا، جس کا کہنا تھا کہ کیجریوال نے اس کی برادری کے ساتھ دھوکہ کیا ہے، اور ان کے ووٹ ضائع کر دیے ہیں۔
میں نے ایک بہت بڑی غلطی کی ہے، وہ میرے لیے بھگوان ہیں، پر میں نے یہ اس لیے کیا کیونکہ انہوں نے کچھ ہی دن میں حکومت چھوڑ دی۔، یہ اس رکشا ڈرائیور کا بیان ہے جس نے کیجریوال کو مجمع میں تھپڑ مارا تھا۔ اے اے پی نے معاملے کو سازش کا روپ دینے کی کوشش کی، لیکن کچھ دن بعد اس نے تسلیم کیا کہ دہلی سے مستعفی ہونا پارٹی کی سنگین غلطی تھی۔
لیکن پارٹی کے لیے اس سے بھی بڑا طمانچہ وہ تھا، جب 16 مئی کو عام انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا۔ پارٹی کو بری طرح سے شکست ہوئی۔ اس کے 400 امیدواروں میں سے صرف 4 کامیاب ہو پائے، اور پارٹی کو کئی ریاستوں میں "کوئی بھی نہیں" کے آپشن سے بھی کم ووٹ مل پائے۔
رواں سال مئی-جون میں میں ڈان اخبار کے لیے انڈیا کے انتخابات کو کور کرنے کے لیے انڈیا کے 4 ہفتوں کے دورے پر تھا۔ اس دورے میں میں نے اس وسیع و عریض ملک کے 5 شہروں میں دوسرے لوگوں کے علاوہ عام آدمی پارٹی کے کئی ورکروں اور ووٹروں سے ملاقات کی،
چاہے وہ سکھ جماعت شرومنی اکالی دل سے خار کھائے پنجابی ہوں، احمدآباد کے اقلیتی مسلمان ہوں، بنگلور کے کاروباری حضرات ہوں، یا دہلی کے دانشور حضرات، ہر بحث میں عام آدمی پارٹی کا پلڑا بھاری تھا۔
بھلے ہی ہر شخص اس پارٹی کے گن گاتا، پارٹی کے کرپشن کے خلاف موقف کی تائید کرتا نظر آتا تھا، پر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتا کہ پارٹی نا تجربہ کار ہے۔
"یہ لوگ پریکٹیکل نہیں ہیں"
"یہ لوگ مظاہروں میں بہتر ہیں پر حکومت میں نہیں"
"یہ لوگ بہت ناپختہ اور جذباتی ہیں"
"یہ لوگ ناقابل اعتماد مہم جو لوگ ہیں"
یہ وہ تاثرات تھے، جو میں نے بار بار سنے، اور جو لوگ پارٹی کے لیے ہمدردانہ تاثرات رکھتے تھے، ان کے مطابق پارٹی نے بھلے ہی غلطی کی، لیکن وہ ایسے فیصلے لینے کے لیے "کم عمر" بھی تھی۔
اس سب سے ایک سبق سیکھا جانا ضروری ہے، وہ یہ کہ نعرے بازی بھلے ہی سیاست کا میدان گرم کرنے کے لیے اچھی ہے، پر اپنے کیے ہوئے وعدوں کی تکمیل اور کارکردگی ڈیلیور کرنے کے لیے بھی عزم اور دانشمندی کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔ گلیوں میں اپنی پرفارمنس کا مظاہرہ کرنا اچھا وارم اپ تو ہوسکتا ہے، پر یہی مکمّل کھیل نہیں ہے۔ اسے ہی سب کچھ سمجھ لینے والے لوگ بلا شبہ غلطی پر ہوتے ہیں۔
ملک میں جو حالات موجود ہیں، وہ ویسے ہی رہیں گے۔ آپ کو انہی حالات میں رہتے ہوئے اپنا کام شروع کرنا ہوگا، اور اگر آپ انہی حالات کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اپنے کیے ہوئے وعدوں کی تکمیل میں ناکام رہیں گے، تو پھر آپ کی نالائقی اور عدم قابلیت کا پول کھلنے میں دیر نہیں لگے گی۔
عمران خان یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ان کی جماعت 2013 کے عام انتخابات میں ہونے والی مبیّنہ دھاندلی کے خلاف خیبر پختونخواہ اسمبلی کو تحلیل کرتے ہوئے قومی اسمبلی سے استعفے دینے کے لیے تیار ہے، پر یہ "مردانہ" اقدام پارٹی کی سیاست کو کس موڑ پر لے جائے گا؟
2013 میں پارٹی نے اس وقت اپنے حامیوں کی ایک بڑی تعداد کو کھو دیا، جب اس نے کرپٹ سیاستدانوں کو اپنی صفوں میں جگہ نہ دینے کے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کی۔ اس وقت پارٹی موقع پرستی کے لیے جانے جانے والے لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ دوسری جانب عام آدمی پارٹی اپنے وعدے سے سچی رہی، اور کسی بھی کرپٹ امیدوار کو اپنے دامن میں جگہ نہیں دی، بھلے ہی وہ الیکشن کے لیے کتنا ہی مضبوط امیدوار کیوں نہ ہو۔
خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی کارکردگی کا فیصلہ عوام اگلے انتخابات میں اپنے ووٹ کے ذریعے کر دیں گے۔ اس بات پر جھگڑنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ ترقی کے اشاریے اوپر جا رہے ہیں یا نیچے، کیونکہ یہ اشاریے سیاست زدہ بیوروکریسی انتہائی مہارت سے ترتیب دیتی ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اس معاملے پر فی الحال غیر جانبدار رہا جائے، اور عوامی فیصلے کا انتظار کیا جائے۔
لیکن پی ٹی آئی کی خیبر پختونخواہ میں کارکردگی میں ایک واضح کمی نظر آتی ہے۔ پارٹی بلدیاتی انتخابات اب تک نہیں کرا سکی ہے۔ اس نے صوبے میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے ایک سنہری موقع کو کھو دیا ہے، اور اب یہ بات کھل کر ثابت ہو چکی ہے، کہ پی ٹی آئی دوسری جماعتوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ جمہوری نہیں ہے۔
پارٹی بلدیاتی انتخابات کرا کر دوسری جماعتوں کے سامنے ترپ کا پتہ کھیل سکتی تھی۔ بلدیاتی انتخابات اس کے بس میں تھے، لیکن شاید پی ٹی آئی کو بھی گلاس آدھا خالی دیکھنے کی، اور بھرے ہوئے آدھے حصّے کو نظر انداز کرنے کی عادت ہے۔
دوسری جانب عام آدمی پارٹی نے شکست کے بعد وہیں سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جہاں سے اس سے غلطی ہوئی، اور وہ ہے دہلی کے مقامی انتخابات۔ دہلی کی ساتوں قومی نشستوں پر بی جے پی کامیاب ہو چکی ہے۔ عام آدمی پارٹی اب عدالتوں میں ہے، انتخابات کو چیلنج کرنے کے لیے نہیں، بلکہ حکومت کو بلدیاتی انتخابات وقت پر کرانے کے لیے مجبور کرنے کے لیے۔
اور کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ بنیادی سطح سے اٹھنے والے عوامی فیصلے سے ہچکچا کون رہا ہے؟ ہندوستان کی انتہائی طاقتور سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی۔
طاہر مہدی جمہوریت اور گورننس پر ریسرچ کرنے والے گروپ پنجاب لوک سجاگ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔
لکھاری الیکشن اور گورننس میں دلچسپی رکھنے والے آزاد محقق ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر TahirMehdiZ@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔