زیارت ریذیڈنسی کی تعمیر نو اور لوگوں کی مشکلات
امن اور خاموشی میں گھری رہنے والی یہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی وہی زیارت ریذیڈنسی ہے جسے گزشتہ سال عسکریت پسندوں نے ایک دھماکے سے ملبے کا ڈھیر بنا دی تھی۔
جمعے کی صبح یہاں کا ماحول افراتفری اور مزدوروں کے ہتھوڑوں کی آوازوں سے گونجتا نظر آرہا تھا کیونکہ نوتعمیر شدہ ریذیڈنسی کو بارہ اگست کو شیڈول افتتاح سے پہلے مکمل کیا جانا تھا۔
اب اس رہائشگاہ کا رنگ سبز کر دیا گیا ہے جن کے بارے میں حکام کا اصرار ہے اس طرح یہ عمارت باآسانی یہاں ارگرد موجود درختوں میں کیموفلاج ہوسکتی ہے۔
صبح نو بجے کے قریب ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیے گئے فیصلے کے مطابق فوجی دستہ یہاں پہنچ گیا تاکہ وزیراعظم نواز شریف کی آمد سے قبل سیکیورٹی انتطامات کو حتمی شکل دی جاسکے، زیارت ریذیڈنسی کے افتتاح کی تاریخ پہلے چودہ اگست رکھی گئی تھی، تاہم اب اسے بارہ اگست کردیا گیا ہے اور کوئی وجہ یا وضاحت بھی پیش نہیں کی گئی ہے۔
فضاءمیں اس وقت کچھ دیر کے لیے سکون پھیل گیا جب مزدوروں نے کچھ دیر کے لیے کام روک دیا، مگر یہ خاموشی ایک لمحے تک ہی برقرار رہ سکی جس کے بعد یہ بحث شروع ہوگئی کہ ریذیڈنسی کے بائیں جانب کے دروازے کو داخلی دروازہ بنایا جائے یا باہر جانے کا۔
ریذیڈنسی کی دوسری طرح کے بڑے آہنی دروازے پر کھڑے فرنٹیئر کور کے ایک افسر سے ایک شخص نے چلا کر یہ کہا" تم خود کو انسان کہتے ہو؟ کسی نے اس وقت مجھے باہر انتظار کرنے کے لیے نہیں کہا جب میں نے ایک روز پہلے تم لوگوں کو بیس پلیٹیں وغیرہ پہنچائیں، اب راتوں رات کیا ہوگیا ہے؟ بڑے صاحب کو بتائیں میں کچن میں کام کرتا ہوں"۔
ایف سی کے افسر نے اس شخص کو کہا کہ وہ ابھی چلا جائے اور کل یا افتتاح والے دن واپس آئے تاہم وہ شخص جانے کی بجائے ایک کونے پر کھڑا ہوکر درختوں کو گھورنے لگا اور اس وقت تک جانے سے انکار کردیا جب تک اسے پلیٹیں اور دیگر سامان واپس نہیں مل جاتا۔
ایف سی افسر کافی مطمئن نظر آنے لگا کیونکہ کم از کم وہ شخص گیٹ سے تو دور ہوگیا اور پھر وہ ہمیں بتانے لگا کہ ایک ہفتے پہلے بلوچستان لبریشن آرمی کی جانب سے ایک پمفلٹ سامنے آنے کے بعد سے اعلیٰ حکام نے سیکیورٹی سخت کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اس نے کہا" بی ایل اے نے ریذیڈنسی کے افتتاح سے قبل حملے کی دھمکی دی ہے، جس کے نتیجے میں ہمیں سیکیورٹی انتظامات سخت کرنے کی ہدایت ملی ہے"۔
اس مقصد کے لیے لورالائی، قلات اور خضدار سے لیویز اور ایف سی اہلکاروں کو طلب کرلیا گیا ہے اور ریذیڈنسی اس وقت مسلح اہلکاروں کے گھیرے میں ہے جنھیں یہاں آنے والے افراد سے سخت رویہ اختیار کرنے کی ہدایت ملی ہے۔
جمعے کی صبح آٹھ بجے ایف سی نے زیارت کے جنوب میں واقع اٹھارویں صدی کے ایک صوفی بزرگ کے نام سے منسوب چھوٹے سے گاﺅں بابا خارواری سے پانچ مشتبہ افراد کو حراست میں لینے کا دعویٰ کیا، تاہم مقامی افراد نے اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا کہ گرفتار ہونے والے افراد کا تعلق آرنائی کے علاقے سے تھا اور وہ چرواہے تھے۔
ہماری بات چیت میں ایک بار پھر درختوں کے پاس کھڑے شخص نے مداخلت کرتے ہوئے پلیٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا، مگر اس نے اپنی تکرار اس وقت ادھوری چھوڑ دی جب ایک نیا نویلا شادی شدہ جوڑا دروازے کی جانب آیا اور ایف سی افسر سے درخواست کی کہ کیا وہ ریذیڈنسی کے فرنٹ پر ایک تصویر لے سکتا ہے۔
خاتون نے کہا کہ ہم نے صرف فوٹو لینی ہے تاہم ایف سی افسر نے اس کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔
تعمیر نو کے بعد سے دن بھر میں متعدد خاندان اور دوستوں کے گروپس یہاں آکر تصاویر لینے کے لیے اپنی قسمت آزماتے ہیں، تاہم انہیں مایوسی ہی لوٹنا پڑتا ہے، ان میں چار اور چھ سال کے دو بچے بھی شامل تھے، جو قائداعظم کی اس تاریخی رہائشگاہ کے سامنے کی طرف تصویر لے رہے تھے جب ایک محافظ انہیں کھینچ کر باہر لے گیا جہاں ان کے والدین موجود تھے۔
ریذیڈنسی کے نشیب میں ہوسکی مارکیٹ موجود ہے جہاں پولیس اور ایف سی اہلکاروں کی بھرمار ہے اور وہ گلیوں میں گشت کرتے یا پھلوں کے اسٹالوں کے قریب بیٹھے نظر آٓتے ہیں۔
کوئٹہ کی بلوچستان یونیورسٹی میں سیاسیات کے چوتھے سال کے طالبعلم عبدالوحید اچکزئی، جو یہاں ایک دکان میں کام بھی کرتا ہے، کا کہنا ہے" ہماری زندگیاں بہت مشکلات کا شکار ہوگئی ہیں، ہمیں اپنی شناخت ظاہر کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے، جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ لیٹ جاﺅ، لوگوں کو بغیر کسی وارنٹ کے شبہے میں گرفتار کرلیا جاتا ہے، گزشتہ سال کے حملے سے پہلے یہ ایک پرامن علاقہ تھا، مجھے توقع ہے کہ یہاں جلد دوبارہ امن قائم ہوجائے گا"۔
عبدالوحید کا کہنا ہے کہ بی ایل اے کی حالیہ دھمکی نے صورتحال ایک بار پھر کشیدہ کردی ہے" سچ بات تو یہ ہے کہ مجھے عسکریت پسندی میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی، جو چیز غلط ہے وہ غلط ہی کہلائے گی، بیشتر افراد کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوگی اگر انتظامیہ اس ریذیڈنسی کو کسی ایسے علاقے میں منتقل کردے جو کم از کم محفوظ تو ہو، میں نے لوگوں کو کئی بار کہتے سنا ہے کہ اس رہائشگاہ کو یہاں سے منتقل کردیا جائے، مگر اس تبدیلی سے کچھ تبدیل نہیں ہوگا، خاص طور پر بلوچستان میں جاری تقسیم کا یہ عمل تھمے گا نہیں"۔