نکاح نامہ کی شقوں سے اکثر خواتین ناواقف
پشاور: صوبائی کمیشن برائے ویمن اسٹیٹس کی جانب سے کیے گئے ایک حالیہ مطالعے میں کہا گیا ہے کہ پشاور میں پچاس فیصد سے زیادہ خواتین اور یہاں تک کہ بہت سے مرد بھی اپنا نکاح نامہ (شادی کا سرٹیفکیٹ) نہیں پڑھ سکتے۔ 74 فیصد خواتین ایسی ہیں جن سے شادی کے رجسٹریشن فارم کو پُر کرنے سے پہلے مشورہ نہیں کیا گیا اور 40 فیصد شادی شدہ خواتین نہیں اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ ان کے نکاح نامے میں ان کی جانب سے کیا تحریر کیا گیا تھا۔
’خیبر پختونخوا میں شادی کی رجسٹریشن‘ کے عنوان سے اس مطالعے کے نتائج بدھ کے روز ایک مقامی ہوٹل میں پیش کیے گئے۔ اس مطالعے میں ضلع پشاور کی 18 منتخب یونین کونسلوں میں لگ بھگ 400 گھریلوخواتین سے رابطہ کیا گیا۔
اس تقریب میں وکلاء، انسانی حقوق کے لیے سرگرم خواتین و حضرات اور صحافیوں نے شرکت کی۔
صوبے میں شادی کی رجسٹریشن سے متعلق مسائل اور چیلنجز کو سمجھنے کے لیے کیا جانے والا یہ سروے اس خطے میں اپنی نوعیت اور وسعت کے لحاظ سے پہلی کوشش تھی۔
ہزارہ یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات کے سربراہ سہیل فاروق نے یوایس ایڈ اور عورت فاؤنڈیشن کے تعاون سے صوبائی کمیشن برائے ویمن اسٹیٹس کے لیے اس سروے کا انعقاد کیا۔ انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نکاح نامہ کی جو شقیں خواتین کے حقوق سے متعلق ہیں، شادی سے پہلے ان پر کراس لگادیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عموماً خاندان کے بڑے بزرگ ہی نکاح نامے کو پُر کرتے ہیں۔
سہیل فاروق کا کہنا تھا ’’ہمیں اس سروے کے دوران ایک واحد خاتون بھی ایسی نہیں ملیں، جنہوں نے خود اپنے نکاح نامے کو پُر کیا ہو۔‘‘
سروے کے مطابق 51 فیصد شادیاں غیر رجسٹرڈ پائی گئیں، یا پھر اپنی شادی کی رجسٹریشن کے حوالے سے جواب دہندہ کے ذہن میں کوئی تصور موجود نہیں تھا۔
زیادہ تر غیررجسٹرڈ شادیاں روایتی طریقوں پر کی گئی تھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ درحقیقت مذہبی پیشوا جو نکاح پڑھاتے ہیں، شادیوں کا اندراج نہیں کروایا تھا، یا تو انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں تھا، یا پھر وہ رجسٹریشن کی اہمیت سے ناواقف تھے۔
محکمہ داخلہ کے منتظر خان نے کہا ’’شادی کے سرٹیفکیٹ کی ملکیت ہونی چاہیٔے اور اس کو آسان ہونا چاہیٔے۔‘‘
کچھ شرکاء نے نکاح نامے کے فارم کو آسان بنانے اور شادی رجسٹرار کی صلاحیت کو بہتر بنانے کی تجویز پیش کی، جبکہ دیگر نے نکاح نامے اور اس کے حوالے سے ایک فرد کے حقوق اور اس کی اہمیت کو میٹرک کی سطح پر طلباء کے نصاب کا حصہ بنانے پر زور دیا۔
انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ شادی کی رجسٹریشن کو نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی کے ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے اور شادی کی رجسٹریشن کا ریکارڈ رکھنے کے طریقہ کار کو کمپیوٹرائزڈ بنانا چاہیٔے۔
صوبائی کمیشن برائے ویمن اسٹیٹس نے نکاح نامے میں کچھ شقوں کے اضافے کی سفارش کی۔
انہوں نے کہا ’’نکاح نامے میں کچھ اضافی شقیں شامل کی جانی چاہیٔیں، مثلاً کیا دولہا پہلے سے شادی شدہ ہے، اس سے پہلے کوئی شادی نہیں ہوئی یا رنڈوا ہے، دولہا اور دلہن کے نام ان کی تعلیم، پیشہ، جائیداد اور ماہانہ آمدنی کی تفصیل کے ساتھ، چاہے شریک حیات مشترکہ خاندانی نظام کے ساتھ رہتا ہوں، یا علیحدہ یا کسی دوسری صورت میں۔‘‘
تاہم صوبائی کمیشن برائے ویمن اسٹیٹس کے ایک رکن اور قانون ساز معراج ہمایوں نے کہا کہ جہیز کے سامان کی فہرست نکاح نامے کی ایک شق تھی، جس سے جہیز کی رسم کی حوصلہ افزائی ہوئی۔
صوبائی کمیشن برائے ویمن اسٹیٹس کی امینہ درّانی نے کہا کہ شرکاء کی رائے کو حتمی پالیسی سفارشات میں شامل کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ان سفارشات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ شادی رجسٹرار کو قانون کی خلاف ورزی یا اختیارات کے غلط استعمال پر جرمانہ ہونا چاہیٔے۔
امینہ درّانی نے کہا کہ اگر کوئی رجسٹرار رجسٹریشن کے قانونی طریقہ کار کی پیروی نہیں کرتا تو اس پر تین سال قید اور پچاس ہزار تک کا جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔