پاکستان

پاکستان بار کونسل کو سابق چیف جسٹس کے سیاسی بیانات پر تشویش

پی بی سی کے وائس چیئرمین محمد رمضان چوہدری نے کہا ہے کہ افتخار محمد چوہدری کو اس طرح کے بیانات دینے کا کوئی حق نہیں ۔

اسلام آباد: وکلاء کے معاملات کی نگرانی کرنے والی اہم تنظیم پاکستان بار کونسل نے کل سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سیاسی معاملات پر بیانات کو سیاسی سرگرمی قرار دیتے ہوئے انہیں مشورہ دیا کہ انہیں ریٹائیرمنٹ کے بعد دوسال کی مدت کی پابندی ختم ہونے کا انتظار کرنا چاہیٔے۔

ملک میں بدامنی اور موجودہ سیاسی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین محمد رمضان چوہدری نے کہا کہ سابق چیف جسٹس کو بیانات جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں، جس سے ناصرف عدلیہ کا وقار مجروح ہو بلکہ پہلے سے غیر مستحکم صورتحال کو مزید سنگین کرنے میں اہم کردار ادا ہوتا ہے۔

جب ان سے سابق چیف جسٹس کے کسی بھی سیاسی بیان کا حوالہ دینے کے لیے کہا گیا تو رمضان چوہدری نے جسٹس چوہدری کی اس تقریر کا حوالہ دیا، جو انہوں نے 2 اگست کو کوئٹہ میں کی تھی، اور جس میں انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کے لیے کسی قسم کا اقدام کیا گیا تو وکلاء برادری کوئٹہ سے اسی طرح کی ایک تحریک شروع کرے گی، جس طرح کی تحریک بطور چیف جسٹس ان کی پہلی برطرفی کے بعد شروع کی گئی تھی۔ یاد رہے کہ 9 مارچ 2007ء میں اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے انہیں برطرف کیا تھا۔

اس کے علاوہ سابق چیف جسٹس نے جمہوریت کے خلاف سازشوں پر افسوس کا اظہار کیا تھا جو 2008ء اور 2013ء کے دوران شروع ہوئی تھیں اور آج بھی جاری ہیں۔

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین نے کہا کہ یہ بیانات بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز کی موجودگی میں اس تقریب کے دوران جاری کیے گئے، جس کا اہتمام کوئٹہ میں بلوچستان بار کونسل اور بلوچستان بار ایسوسی ایشن کی جانب سے کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ ججز کو اس طرز کی تقریبات سے خود کو دور رکھنا چاہیٔے، اس لیے کہ اس سے عدلیہ کے خلاف تنقید کا موقع ملتا ہے۔

رمضان چوہدری نے کہا کہ جسٹس چوہدری نے نو تشکیل شدہ جسٹس لائرز پارٹی کے زیراہتمام چار اگست کو ایک عیدملن پارٹی میں کہا تھا کہ عوام کو پورا یقین ہے کہ آئین میں ان کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے، لہٰذا وہ کسی بھی غیر آئینی اقدام کی بھرپور مزاحمت کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس چوہدری کو اس طرح کے بیانات دینے کا کوئی حق نہیں تھا۔