مووی ریویو: 'سلطنت' سے برا کچھ نہیں ہو سکتا
جوڑ توڑ سے مکمل ہوئی فلم
فلم کا مرکزی کردار یعنی انڈر ورلڈ ہیرو، اسلم بھائی کا کردار، اسلم بھٹی نے ادا کیا ہے جو فلم کے پروڈیوسر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے کو ڈسٹریبیوٹر بھی ہیں-
فلم کا پلاٹ کسی نہ کسی طرح ہمیں بتاتا ہے کہ وہ ایک بزنس مین ہیں- وہ کس چیز کا کاروبار کرتے ہیں اس کا کوئی ذکر نہیں اور یہ بھی کہ وہ ایک جذباتی شخص ہیں پر عمومی طور وہ ایک اچھے انسان ہیں تاہم ان کے اپنے گھر والوں کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں- ان کے گھر والے پاکستان کے دیہاتی علاقوں میں رہتے ہیں (ان میں مصطفیٰ قریشی اور احسن خان شامل ہیں جن کے بارے میں ایک وقت میں یہ خبریں تھیں کہ وہ اس فلم کے ہیرو ہیں پر فلم میں ان کا کردار بمشکل تین منٹ کا ہے)-
اسلم کی مشرق وسطیٰ میں ایک سلطنت ہے جہاں ان کے پاس غیر ملکی حسینائیں ان کی بانہوں میں آنے کے لئے بے تاب ہیں (اور وہ بھی ان کپڑوں میں جیسے کہ ٹریلر میں دکھایا گیا ہے) تاہم اس کے باوجود، وہ کبھی بھی جمعے کی نماز نہیں چھوڑتے اور یہ پلاٹ کا وہ نکتہ ہے جو آگے چل کر مووی کے کلائمیکس میں دکھائی جانے والی لڑائی میں اہم کردار ادا کرتا ہے جو کہ نہ جانے کون سے جنگل کی لوکیشن پر انڈر ورلڈ کے دو متحارب گروپوں میں ہوتی ہے، ویسے کہانی کی طرح فلم میں لوکیشنز کی کوئی اہمیت نہیں-
اسلم کی بیوی کا کردار، جو ایک خوش شکل، لئے دیئے رہنے والی اور سمجھدار خاتون ہیں، شویتا تیواری نے نبھایا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اسلم کی دلچسپی تارا (اچنت کور) میں بھی ہے تاہم وہ اسلم کے جذبات کو رد کر دیتی ہے- اس ناکامی کے بعد، اسلم پری کی طرف لوٹتے ہیں اور وہ انہیں قبول کر لیتی ہیں-
دوسری جانب اسلم کے دشمن بھی ہیں، ایک تو سکندر ہے جو ان کا کریمنل کزن ہے اور یہ کردار جاوید شیخ نے ادا کیا ہے (ویسے اس میں انہوں نے اداکاری برائے نام کی ہے) اور ایک ہے گھڑو ڈالر (گووند نامدیو) جو نقلی کرنسی کا کاروبار کرتا ہے پر اس کی نقلی کرنسی اتنی اچھی ہوتی ہے کہ اس پر اصل کا گمان ہوتا ہے یا خود اس کے الفاظ میں کہیں تو "ڈالر نقلی چھاپتا ہوں پر بات اصلی کرتا ہوں"-
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سکندر اور ڈالر کے پاس اسلم کو نیچا دکھانے اور اس کو جذباتی طور پر پریشان کرنے کے سوا کوئی کام دھام نہیں- ان کی ایسی ہی ایک ناکام سکیم کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دونوں فیملیز کو ملانے کے لئے سکندر کے بیٹے اور اسلم کی چھوٹی بہن زینب (زینب قیوم یا زی کیو) کی منگنی کی تقریب برباد ہو کر رہ جاتی ہے یعنی آخر میں ایک پلیٹ پر ایک سر رکھا ہوتا ہے اور ٹوٹی ہوئی شراب کی بوتلیں-
سکندر اور ڈالر کو ایک بچھڑا ہوا ساتھ مل جاتا ہے (آکاش دیپ سہگل) اور جس کے بڑے بھائی (پنیت) بھی ایک انڈر ورلڈ ڈان ہیں اور جنھیں ایک خطرناک لڑائی میں اسلم نے بری طرح پیٹا تھا- ان کی یہ لڑائی، جو کہ سلمان خان سٹائل کی لڑائی تھی، فلم سلطنت کا واحد قابل ذکر ایکشن سین ہے-
اسی دوران تارا ٹی ایس آئی (دی اسپیشل انویسٹیگیشن) کے ایجنٹ کے طور پر ان سب کے خلاف کام کر رہی ہے (ویسے اس بلڈنگ کا سائن اتنا برا اور بھدا ہے کہ صاف پتہ چل رہا ہے کہ کام چلانے کے لئے سائن لگایا گیا ہے)- وہ کیسے اپنی تفتیش کرتی ہے یہ اپنے آپ میں ایک راز ہے اور ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں کی کام کی جگہوں پر ناولوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جن سے ہمیں ان کی اپنے کام سے محبت اور لگن کا صاف پتہ چلتا ہے)-
ایک سین میں تارا، بھکشو کو اپنی سلامتی کے بارے میں خبردار کرتی ہے جو کہ بظاہر ریاست کے لئے ایک اہم گواہ ہے- بعد میں وہ بھکشو، جو کہ شاولن ٹمپل سے کنگ فو ٹریننگ لئے ہوئے ہوتے ہیں سکندر کے بھیجے ہوئے قاتل کے ہاتھوں مارا جاتا ہے اور یہ سین بھی انتہائی بری طرح امیچور انداز میں فلمایا گیا ہے-
تکنیکی باتیں نہ کریں— سچی میں
بخاری جو اس سے پہلے بھائی لوگ (یہ فلم بھی انڈر ورلڈ کریمنلز کے بارے میں ہے اور اسے بھی بھٹی نے پروڈیوس کیا تھا) بنا چکے ہیں ایک تجربہ کار سنیماٹو گرافر ہیں– یا یوں کہہ لیں کہ ایسا مجھے بتایا گیا تھا، پر سلطنت دیکھ کر ایسا کچھ بھی نہیں لگتا-
ایسا لگتا ہے جیسے فلم کو تیس قسطوں کے سیریل اور ایک موشن پکچر کے طور پر سوچا گیا تھا اور اسی طرح اس کی تیاری میں مختلف ویڈیو فورمیٹس استعمال ہوئے ہیں جس کا نتیجہ انتہائی کنفوژنگ ہے- تقریباً پچاس فیصد فوٹیج، جسے لگتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح زیڈ اے زلفی، نجیب خان اور عدل پی کے نے ایڈٹ کر کے کہانی کا رنگ دے دیا تھا، پوسٹ پروڈکشن میں اس کا بھی کباڑا کر دیا گیا ہے، کیونکہ اس میں کسی قسم کی پروفیشنل ٹرانسکوڈنگ نظر نہیں آتی- ویسے تو فلم کا فارمیٹ 2048 پکسلز ہے پر چند جگہوں پر ڈی وی فارمیٹ بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ ایوب کھوسہ کا ایک سین 720 پکسلز میں فلمایا گیا ہے اور چند جگہوں پر 1280 اور 1920 پکسلز بھی استعمال ہوئے ہیں اور ان سب کا فرق واضح دکھائی دیتا ہے-
اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ سینز کی فلمبندی کے دوران ایک یا زیادہ سے زیادہ دو لائٹ سورس استعمال کئے گئے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ چہرے اور ہائی لائٹس، بلون آوٹ ہو گئے ہیں (یعنی ان میں سفیدی اتنی زیادہ ہے کہ باقی چیزیں دکھائی نہیں دے رہیں)- اس کے علاوہ فوکس کے اپنے مسائل ہیں، شروع کے ایک سین میں جاوید شیخ اور گووند نام دیو کے درمیان فوکس کچھ اس طرح تبدیل ہوتا ہے کہ ان دونوں میں موجود فاصلہ نظر انداز ہو جاتا ہے- اس کے علاوہ غیر مناسب لینس استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے پورا سین 'سوفٹ' ہو جاتا ہے-
آدھی فلم تک تو کاسٹیوم ڈیزائن صرف اسی بات تک محدود رہے ہیں کہ ایکٹرز سیٹ پر کیا پہن کر آئے ہیں- میک اپ بھی واجبی سا ہے (اور یہاں بھی یہی لگتا ہے کہ اداکاروں نے خود ہی اپنا میک اپ کیا ہے) یا پھر کہیں نظر بھی آتا ہے تو وہ بھی مِس میچ ہے- سیٹس کی بات کریں تو بھٹی صاحب نے یہاں پر کچھ کام کیا ہے پر اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہاں بھی امیچور اپروچ واضح ہے-
آڈیو اور ڈبنگ ایک دوسرے سے بالکل بھی ہم آہنگ نہیں اور چند سینز میں تو ٹیک کے وقت کی آواز سنائی دیتی ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ ڈائیلاگز کے لئے اداکاروں نے الگ سے کوئی سیشنز تک نہیں کئے- ان سب کا نتیجہ یہ ہے کہ کہیں آواز اونچی ہے تو کہیں دھیمی-
اداکاری: شاید ٹی وی کے لئے بہتر تھی
دلچسپ بات یہ ہے کہ بھٹی کا سکرین ٹائم، جنہوں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے، ضرورت سے بھی زیادہ ہے- ان کا اسلم ایک پاگل برے آدمی کا تاثر آسانی سے قائم کر دیتا ہے- ویسے ان کے کردار کو ایک پاور ہاؤس ہونا چاہئے تھا پر ہوا یہ ہے کہ وہ سوائے اس کے کے اپنے پالتو چیتے کے ساتھ چلیں پھریں، دو تین گانوں میں نظر آئے اور جب انہیں غصہ آئے تو وہ بڑے لوگوں کو گولیاں مار دیں اور بس- وہ اس سے زیادہ کچھ کرتے نظر نہیں آئے-
ان کے مقابلے میں تیواری نے پھر بھی اپنے کردار سے انصاف کیا ہے اور ان کی طرح زی کیو، اچنیت کور اور چیتن ہںس راج نے بھی-
گووند نام دیو، پنیت اور دیپک شرکے، اپنے پچھلے مختلف کرداروں کے مختلف رنگ بکھیرتے نظر آئے ہیں جس کی وجہ سے سکرین پر ان کا ولن والا ٹچ آسانی سے نظر آتا ہے- جاوید شیخ، اپنے تجربے کے باوجود، شاید اس وجہ سے وہ تاثر قائم نہیں کر سکے کہ انہیں اس کا موقع ہی نہیں دیا گیا- ایسا لگتا ہے کہ انہیں ہر سین کا سکرپٹ سیٹ پر ہی تھمایا گیا تھا-
تاہم آکاش دیپ سہگل شاید سلطنت کا سب سے غلط کاسٹنگ ڈسیژن ہیں- جس طرح وہ اپنے غصے، ناراضگی اور جنرل ڈلیوری کے دوران کانپتے، سکڑتے اور اپنے جسم کو مختلف سمتوں میں موڑتے نظر آئے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے انہیں بہت تیز بخار چڑھ گیا ہو-
سہگل کو ان غیر ملکی ڈانسرز سے کچھ سیکھنا چاہئیے جنہوں نے 'سونے دی تاویتڑی' کے ریمکس ورژن پر کم از کم لپسنک کرنے کی کوشش تو کی ہے-
تاہم، ساجد حسین کے گانے توقعات کے برخلاف خاصے بہتر ہیں-
کہانی: بس بنا ہی دی گئی
سلطنت کے بارے میں کیا کہا جائے- یہ پریشان کن اور اوور شاٹ ہے سمجھ نہیں آتا کہ بخاری اسے ایک موشن پکچر کی طرح شروع کرنے کے بعد ایک سیریل میں تبدیل کرنا چاہتے تھے یا پھر اس کا الٹا تھا، میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، دوسری بات کہانی کی حد تک ہی سہی یہ کام مکمل ہوا-
یہ یقیناً ایک برا فیصلہ تھا کہ ایک چار پانچ سو سینز کی کہانی کو اسی سینز کی موشن پکچر میں سوچا جائے- نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ اس کی شکل ہی بگڑ کر رہ گئی- اس کے علاوہ اس کا لے آؤٹ جتنا برا ہے اتنا ہی مضحکہ خیز بھی ہے-
ایسا لگتا ہے جیسے فلم ایک آفٹر تھاٹ ہے جیسے ٹکڑوں کو ایڈیٹر نے جوڑ دیا ہے- اگر بخاری صاحب کی سبجیکٹ پر تھوڑی سی بھی بہتر گرفت ہوتی اور وہ صرف ایک موشن پکچر شوٹ کرتے بجائے اس کے کہ ایک سیریل، تو سلطنت کی کہانی اور اس کے کردار پھر بھی بہت بہتر ہوتے اور شاید ان سے کوئی تعلق بھی جوڑا جا سکتا تھا-
فائنل ورڈ
فلم کو ڈسٹریبیوٹ کیا ہے اے آر وائی نے- ڈائریکٹر ہیں سید فیصل بخاری؛ پروڈیوسر ہیں اسلم بھٹی؛ سکرین پلے ہے پرویز کلیم کا؛ ایڈیٹر ہیں زیڈ اے زلفی، نجیب خان، عدیل پی کے؛ میوزک ہے ساجد حسین کا-
سلطنت کے ستاروں میں شامل ہیں: اسلم بھٹی، مصطفیٰ قریشی، جاوید شیخ، زینب قیوم (جنہیں مکمل طور پر ضائع کیا گیا ہے)، نیئر اعجاز، احسن خان، دیپک شرکے، آکاش دیپ سہگل، شویتا تیواری، اچینت کور، چیتن ہنس راج، گووند نام دیو، پنیت اور صلہ حسین اور سارا لورین (آئٹم نمبروں میں)-
ترجمہ: شعیب بن جمیل