میری بیٹی اور کائنات
وہ ان چند گنے چنے دنوں میں سے تھا جب سورج کی تیز روشنی کے ساتھ ساتھ ایک خنکی مائل باد نسیم بھی چہار سو پھیل جاتی ہے۔
آسمان سمندر کی طرح گہرا نیلا تھا، درخت اس سے پہلے کبھی اتنے سر سبز و شاداب محسوس نہیں ہوئے تھے۔ موسم گرما کی آمد آمد تھی، جس کے آنے سے تمام خوبصورتی جھلستی ہوئی لگتی ہے، لیکن اس سے ان لمحات کی شگفتگی پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا تھا۔
میں اور میرے گھر والے ہفتہ وار تعطیلات گزارنے اسلام آباد کی جانب رواں دواں تھے۔
بھیرہ کے مقام پر ہم سی این جی بھروانے کے لئے گاڑیوں کی ایک لمبی قطار میں پھنس گئے، لیکن اس امید پر کے جلد ہی چار روزہ چھٹیاں اور گیس کا ایک بھرا ہوا سلنڈر ہمارا ہوگا۔
میری اہلیہ اور بیٹا ریسٹ ایریا کی جانب بڑھ گئے، ان وجوہات کی بنا پر جو چھوٹے بچوں کے ساتھ ہمیشہ پیش آتی ہیں۔ میری بیٹی نے سامنے والی سیٹ کے خالی ہوتے ہی موقع کا فائدہ اٹھایا، اور آگے آ کر اپنے ابّو کے ساتھ بیٹھ گئی۔ وہ اس وقت تقریباً ایک سال کی تھی۔
آگے آتے ہی اس نے گئیر سٹک کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دی، جس پر میں نے اسکو منع کیا۔ گئیر سٹک کے بعد اسکی توجہ گلووز باکس پر مرکوز ہوگئی۔ میں نے اپنے زیر نظر اسکو گلووز باکس سے کھیلنے دیا۔
ہمارے آگے ایک سوزوکی مہران گاڑی کھڑی تھی۔ دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنی گنجائش سے کہیں زیادہ لوگوں کا بوجھ برداشت کئے ہوئے تھی. سی این جی کی قطار آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی، کہ اچانک اگلی گاڑی کے دروازے کھلے، اور 6 مولوی حضرات گاڑی سے برآمد ہوئے۔
ان سب نے جی بھر کے انگڑائیاں لینی شروع کر دیں۔ ان میں سے ایک نے میری بیٹی کو دیکھا اور مسکرایا۔ میری بیٹی بھی جواباً مسکرائی، اور پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
پھر وہ میری جانب مڑی، اور پھر اسی دوستانہ چہرے کی جانب دیکھ کر وہ ایک بار پھر کھلکھلا اٹھی۔
میں نے بھی گردن کی جنبش سے ان صاحب کی خوش مزاجی کا جواب دیا۔ ایسے عارضی اور کم دورانئے کے تعلقات انسانی سرشت کا حصہ ہیں، ان کچھ مسکراہٹوں کے تبادلوں کے بعد یہ تعلق بھی ختم ہوگیا۔
پھر اچانک میرے ذہن کی گہرائیوں سے ایک خیال اٹھا۔
"اگر ان صاحب کو معلوم ہوتا کہ یہ بچی احمدی ماں باپ کی ہے، کیا تب بھی انکا رویہ ایسا ہی دوستانہ ہوتا؟"
کیا انکے چہرے کے تاثرات مسکراہٹ کے بجائے شدید غصّے میں بدل جاتے؟
کیا انھیں اسکی معصوم آنکھوں میں ارتداد کی جھلک نظر آتی؟
کیا پیار اور ہم دلی کے احساسات نفرت سے بدل جاتے؟ کیا وہ اسے زندہ رہنے دیتے یا اسے مرتے دیکھنا چاہتے؟
میں بذات خود کبھی گوجرانوالہ نہیں گیا۔ لیکن جتنا میں جانتا ہوں، اس کے مطابق یہ ایک چھوٹا سا، پر زندہ دل شہر ہے، جہاں پہلوان بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ گوجرانوالہ ایک طرح سے پاکستان کا غذائی دار الحکومت بھی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ بٹیر کھانے یا قدیم طرز کی کشتی دیکھنے ضرور جانا چاہیں گے۔
لیکن 28 اور 29 رمضان کی درمیانی رات یہ شہر ایک بھیانک المیے کا شاہد بنا۔
یہ سب تب شروع ہوا، جب ایک احمدی نوجوان پر خانہ کعبہ کی توہین آمیز تصویر فیس بک پر شائع کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ اس لڑکے کا الزامات کی حقانیت سے انکار عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے کافی ثابت نہیں ہوا، اور اس لڑکے سے انتقام کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔
لوگ جمع ہونے شروع ہوئے۔
مقامی تاجر تنظیموں نے تمام قریبی دکانوں کو کاروبار جلدی بند کر دینے یا نتائج بھگتنے کا عندیہ دے دیا تھا۔
لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی، اور آخر کار مشتعل افراد نے اس احمدی بستی پر دھاوا بول دیا، جس سے وہ لڑکا تعلق رکھتا تھا۔
پھر اچانک مظاہرین کی کرخت آوازوں کے ساتھ ایک آگ جل اٹھی۔
پھر ایک اور، پھر ایک اور۔
چند ہی لمحوں میں متعدد احمدی گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ آگ لگانے والے مظاہرین جلتے گھروں کو دیکھ کر خوشی سے ناچتے رہے، جبکہ پولیس خاموش تماشائی کی طرح دور کھڑی یہ تمام منظر دیکھتی رہی۔
مشتعل غول اب صرف آتش باز نہیں، بلکہ ایک قاتل بھی بن چکا تھا، انکی لگائی ہوئی آگ میں 3 معصوم جانیں جل کر راکھ ہو چکی تھیں۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے اقدامات کے نتائج پر خوشی سے رقص کرتے رہے۔
ایک دن بعد میں نے آٹھ ماہ کی کائنات کے جنازے میں شرکت کی۔ کائنات عوامی جذبات کا نشانہ بننے والے تینوں افراد میں سب سے کم عمرتھی۔ اسکو اس کی سات سالہ بہن اور دادی کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔ ان کی آخری آرام گاہوں کے ساتھ ان دوسرے احمدیوں کی قبریں تھیں، جن سے ان کی زندگیاں ایسی ہی بے بےرحمی سے چھین لی گئیں تھیں۔
آٹھ ماہ کا عرصہ وہ عرصہ ہے، جس میں ایک بچے کی پیدائش کا عمل بھی مکمل نہیں ہوتا۔ اتنی عمر میں کائنات صرف اپنی ماں کی کوکھ سے ہی واقف تھی۔
خود غرضوں کی طرح میں نے اپنے بچوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ وہ تمام امیدیں، وہ تمام خواب جو میں نے اپنے بچوں کے بارے میں دیکھ رکھے تھے۔ کیسے میں نے ان کا خیال رکھنے میں کوتاہی برتی تھی، اور کیسے میں گھر جاتے ہی انھیں گلے سے لگا لینے والا تھا۔
پھر مجھے کائنات کی والدہ کا خیال آیا، جن کے پاس عید سے صرف ایک دن پہلے کوئی بیٹی نہ تھی جسے وہ کپڑے پہنا کر عید کے لئے تیار کرتیں۔
نہ بالوں کی وہ لٹیں جن کو سنوارا جائے، نہ وہ ہاتھ جن پر مہندی سجائی جائے۔
اپنے تمام تنہائی کے لمحات میں وہ یہ سب باتیں ایک کرب کے ساتھ یاد کرینگی. شاید اپنی معصوم بچوں کے کبھی نہ آنے والے مستقبل، انکے عروسی جوڑوں، اور دیگر خوشیوں کو سوچتے ہوئے سرگوشیوں میں ان سے باتیں کریں گی۔
ایک گرم آنسو میری آنکھ کی قید سے آزاد ہو کر گال پر بہہ گیا اور نہ صرف میں، بلکے میرے آس پاس موجود تمام افراد کی کم و بیش یہی حالت تھی۔
تمام لوگ غم و اندوہ سے نڈھال تھے
کائنات جا چکی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ پوری کائنات اس کے ساتھ جا چکی ہے۔ کسی کے پاس اب اس لاوارث جگہ پر رہنے کے لئے کیا وجہ باقی رہی ہے۔
ایک انسانیت کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، میں اب یہ جان چکا تھا۔
کیونکہ ہم سبھی مردہ ہو چکے ہیں. مجھے جواب مل چکا ہے۔
کاش کہ مجھے جواب نہ ملا ہوتا۔