پاکستان

سانحہ سی ویو: ہلاکتوں کی تعداد 38 ہوگئی

سندھ ہائی کورٹ میں سانحہ کے خلاف درخواست دائر کردی گئی ہے جس میں حکومت سندھ اور آئی جی سندھ کو فریق بنایا گیا ہے۔

کراچی:سانحہ سی ویو میں ڈوب کر ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کی تلاش کا کام چوتھے روز بھی جاری ہے اور صبح سے اب تک مزید دو لاشیں سمندر سے نکالی جا چکی ہیں، جس کے بعد مرنے والوں کی تعداد 38 تک پہنچ گئی ہے۔

آج صبح پیر آباد کےرہائشی نور محمد اور کورنگی کے چودہ سالہ حمزہ کی لاشیں منوڑہ اور چائنا کریک سے ملیں، جنہیں ورثاء کے حوالے کر دیا گیا ۔

سی ویو کے ساحل پر ڈوبنے والے افراد میں سے 32 لاشیں نیوی کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے سمندر سے نکالی گئیں جبکہ 6 لاشیں سی ویو سے متصل مختلف ساحلوں پر پائی گئیں ۔

حکام کے مطابق اب بھی دو سے تین لاشیں سمندر میں موجود ہونے کا امکان ہے ، جن کی تلاش نیوی کے ہیلی کاپٹر اور غوطہ خوروں کے ذریعے جاری ہے۔

ترجمان پاک بحریہ کے مطابق اس آپریشن میں سی کنگ ہیلی کاپٹر، بوٹس اور غوطہ خور حصہ لے رہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سی ویو سے متصل سمندری پٹی پر پورٹ کی توسیع اور مختلف تعمیراتی منصوبوں کے لیے کھودے گئے گڑھے ان افراد کے لیے موت کا پیغام لے کر آئے۔

بعض منصوبوں پر تعمیراتی کام اب بھی سست روی سے جاری ہے، تاہم انتظامیہ کی جانب سے اس خطرناک ساحلی علاقے میں لوگوں کا داخلہ روکنے کے لیے کوئی انتظام نہیں ۔

پاکستان نیوی کے پبلک ریلیشنز ڈائریکٹوریٹ کے اسٹاف آفیسر لیفٹیننٹ محمد یاسر نے لوگوں کی بے احتیاطی کو سانحے کا سبب قرار دیا، جبکہ کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی نے اداروں اور انتظامیہ کی غفلت کا بھی اعتراف کیا۔

ماہرین کی رائے میں سی ویو سانحہ میں اداروں کی غلفت کے ساتھ ساتھ باغ ابن قاسم کے سامنے سمندر میں بننے والا بھنور اور لہروں کا مدوجزر بھی اس افسوسناک سانحہ کی اہم وجوہات ہیں، جن سے آگاہی نہ ہونا قیمتی انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بنا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے سانحے کی تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیشن قائم کر دیا ہے، جوپانچ دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔

سندھ ہائی کورٹ میں بھی سانحہ سی ویو کے حوالے سے ایک درخواست دائر کردی گئی ہے جس میں حکومت سندھ اور آئی جی سندھ کو فریق بنایا گیا ہے۔

ندیم شیخ ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عید سے قبل ہر سال سی ویو کی سکیورٹی سے متعلق پلان بنایا جاتا ہے، لیکن اس سال کیوں نظر انداز کیا گیا۔

عدالت نے فریقین سے جواب طلب کرلیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ سانحہ کی شفاف تحقیقات کرائی جائیں گی ۔