پاکستان

اسلام آباد میں اضافی دستے تعینات نہیں کر رہے، فوج

دستوں کی تعیناتی پندرہ جون کو ہو چکی اور اس حوالے سے نوٹیفیکیشن دیر سے آیا، فوجی ترجمان کا اصرار۔

اسلام آباد: جمعہ کو وفاقی دارالحکومت میں فوج کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن موثر ہونے کے بعد آرمی نے کہا ہے کہ وہ شہر میں کوئی اضافی دستے تعینات نہیں کر رہی۔

فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے ڈان کو بتایا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد پندرہ جون سےاسلام آباد میں خصوصی فرائض کے لیے تعینات فوجیوں کی تعداد میں اب مزید کوئی اضافہ نہیں کیا جا رہا ۔

گزشتہ ہفتہ وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت دارالحکومت میں تین مہینوں کے لیے سول انتظامیہ کی معاونت کی خاطر فوج کی خدمات حاصل کرے گی۔

تاہم، جنرل باجوہ کا اصرار ہے کہ فوج کی تعیناتی پندرہ جون کو ہی ہو چکی تھی اور یہ کہ اس حوالے سے نوٹیفیکیشن دیر سے آیا ۔

ایک عسکری ذرائع نے شہر میں سیکورٹی فرائض پر معمور فوجیوں کی کُل تعداد 350 کے قریب بتائی جبکہ شہری انتظامیہ نے صحافیوں کو بتایا کہ پانچ فوجی کمپنیاں (500 سے زائد فوجی) تعینات ہیں۔

یہ فوجی ائیرپورٹ، سفارتی انکلیو، ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس، مرگلہ کی پہاڑیوں اور حساس تنصیبات پر تعینات ہیں۔

ایک پولیس افسر نے بتایا کہ یہ فوجی شہر کے داخلی راستوں کی نگرانی کے علاوہ گشت کے فرائض بھی سر انجام دے سکتے ہیں۔

انتظامیہ کے ایک عہدے دار کا کہنا تھا کہ تعینات فوجی مقامی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی مدد کرنے کے علاوہ ضلعی مجسٹریٹ کے اختیار میں ہوں گے۔

دوسری جانب، اپوزیشن پارٹیاں اسلام آباد میں فوج تعینات کرنے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے ایک 'سیاسی غلطی 'قرار دے رہی ہیں۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ اس اقدام کااصل محرک چودہ اگست کو پاکستان تحریک انصاف کا دھرنا ہے۔

لیکن وزیر داخلہ اس خیال کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فوج کو پی ٹی آئی مارچ روکنے کے لیے تعینات نہیں کیا جا رہا۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آرٹیکل 245 لگانے کا فیصلہ وزیرستان آپریشن سے پہلے ہی کر لیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ فوج تعینات کرنے کا نوٹیفیکیشن اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج ہو چکا ہے۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست کی سماعت چھ اگست سے روازنہ کی بنیاد پر شروع ہو گی۔