مجبوری میں قرض
خراب مالی حالات و مجبوری انسان سے وہ کام کروادیتی ہے، جو آگے چل کر اُس کی بربادی کاسبب بنتے ہیں۔ کسی مخلص و ہمدرد انسان سے قرض حسنہ لیا جائے تو وہ قرض کے بھنور میں پھنسی آپ کی کشتی کو کنارے تک پہچانے میں بڑا اہم کام سرانجام دیتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایسے افراد اور اداروں کی کمی نہیں جو غریبوں و ضرورت مندوں کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ یہ سُود خور انتہائی سخت شرائط پر لوگوں کو قرض دیتے ہیں اور حالات کے ستائے لوگ اِن کا شکار بڑی آسانی سے بن جاتے ہیں۔ بعض تو اتنے مکار ہیں قرض کے متلاشی شخص سے سونا لے کر رقم دیتے ہیں، یعنی دو لاکھ کے سونے پر ایک لاکھ روپے قرض دیا جاتا ہے اور سود بھی زیادہ لیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کا سونا اب سود خور کا ہو جاتا ہے۔
زیادہ دولت کی ہوس نے سود خوروں کو اندھا کر دیا ہے، طاقت و دولت کے نشے میں دھت یہ لوگ کسی بھی حد تک جانے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں، کوئی جیئے یا مرے اِن ظالموں کو صرف پیسے کی فکر ہوتی ہے۔ ہم آئے دن اخبارات میں خبریں پڑھتے ہیں کہ قرض کی رقم و سود نہ ہونے کے سبب نوجوان نے خودکشی کرلی۔
ایسی افسوس ناک خبریں پڑھ کر ہر اَس انسان کا دل خون کے آنسو روتا ہے جس کے دل میں خوفِ خدا موجود ہے۔
جس بد نصیب نے اپنی زندگی ختم کر لی وہ بھی کسی کا بیٹا بھائی باپ یا خاوند تھا، اَس بے چارے کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ اپنے خاندان، بیوی بچوں کو بہترین مستقبل دینے کا آرزو مند تھا۔ لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اَٹھانے والے آخرکب سمجھیں گئے کہ دنیا کا مال دنیامیں ہی رہ جانا ہے۔ دولت کا عاشق آدھی سے زیادہ دنیا فتح کرنے والا سکندرِعظم جب مرا تو دولت کے پجاریوں کو ایک نصیحت کر گیا۔ سکندر کی آخری وصیت کو پورا کرنے کے لئے اَس کے دونوں ہاتھوں کو تابوت سے باہر نکالا گیا، یہ نصیحت تھی سب کے لئے کہ دنیا کا امیر ترین انسان بھی دنیا سے خالی ہاتھ ہی جارہا ہے۔