کراچی کی قدیم عید گاہیں
عید گاہ میں نماز عید کی تمام تیاریاں مکمل ہیں۔ چاق و چوبند نوکر شاہی انتہائی مستعدی سے نماز عید کے حتمی انتظامات کا جائزہ لے رہے۔ نماز کا وقت قریب آرہا ہے۔ سربراہ مملکت کا انتظار ہے جن کی آمد میں تاخیر ہوتی جارہی ہے۔
ایک چھوٹے افسر نے سربراہ مملکت کے اے ڈی سی کی توجہ وقت کی جانب مبذول کروائی۔ اے ڈی سی صاحب نے سنی ان سنی کر دی۔ چھوٹے افسر نے پھر یاد کرایا کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ ای ڈی سی نے ناگواری سے چھوٹے افسر کی طرف دیکھا اور اسے کہا کہ مولانا کو بتادو کہ جماعت صاحب کے آنے کے بعد ہی ہوگی۔
چھوٹا افسر الٹے قدموں لوٹ گیا اور چند ہی لمحوں میں واپس آکر اے ڈی سی کو بتایا کہ مولانا نے نماز میں تاخیر سے انکار کر دیا ہے۔ اب اے ڈی سی کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات نمایاں ہونے شروع ہوئے۔
ابھی اے ڈی سی سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کرے۔ اچانک لاؤڈ اسپیکر پر اعلان ہوا کہ نماز کے لیے صفیں سیدھی کرلی جائیں، لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ چند لمحوں بعد نماز شروع ہوگئی۔ اے ڈی سی پریشانی کے عالم میں مرکزی دروازے کی طرف بڑھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سربراہ مملکت کی سرکاری گاڑی عید گاہ کے مرکزی گیٹ پر موجود تھی وہ فوراً حفاظتی عملے کے انچارج کی جانب بڑھا اور پوچھا سربراہ مملکت کہاں ہیں؟ اس نے آخری صفوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا وہاں۔ سربراہ مملکت آخری صف میں کھڑے نماز ادا کر رہے تھے۔ اے ڈی سی کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ لیکن مرتا کیا نہ کرتا۔ نماز ختم ہونے کا انتظار کیا۔
نماز ختم ہونے کے بعد سربراہ مملکت کی جانب بڑھا اور ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا سے استدعا کی گئی تھی کہ نماز آپ کے آنے کے بعد شروع کی جائے لیکن وہ نہیں مانے۔ اے ڈی سی کو امید تھی کہ اب مولانا کی خیر نہیں۔ انہیں اس فیصلے کی سزا بھگتنی ہوگی۔ سربراہ مملکت نے ناگواری کا اظہار کرنے کے بجائے مولانا کی تعریف کی کہ انھوں نے ان کا انتظار نہیں کیا۔
ہے نا عجیب بات، لیکن یہ ان دنوں کی بات ہے جب سربراہ مملکت عوامی اجتماعات میں نماز پڑھتے تھے اور بعد ازاں بہ قول مرحوم PTV کے جو کسی وقت میں واحد ٹی وی چینل ہوا کر تھا، عوام میں گھل مل جاتے تھے. یہ عوام اکثر سادہ لباس میں قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں پر مشتمل ہوتی تھی۔
یہ پاکستان کے قیام کے بعد دوسری عید تھی۔ سربراہ مملکت قائد اعظم محمد علی جناح تھے اور نماز پڑھانے والے مولانا کا نام ظہور الحسن درس تھا۔ بعد میں اسی پاکستان میں ایک انقلابی مولوی --جو گلو بٹ سے خاصے متاثر ہیں-- نے ایک بڑے شریف کے انتظار میں نماز جمعہ 30 منٹ تاخیر سے شروع کی تھی۔ گوکہ اب مولانا صاحب کی ان شریفوں سے نہیں بنتی۔
عموماً سمجھا یہ جاتا ہے کہ کراچی کی پہلی عید گاہ بندر روڈ پر جامع کلاتھ مارکیٹ کے بالمقابل ہے لیکن تاریخی حقائق کچھ اور ہیں، کراچی کی قدیم ترین عید گاہ لیاری میں ہے اور فقیر محمد خان درّا روڈ پر واقع ہے۔
ممتاز صحافی صدیق بلوچ کے مطابق لیاری کی یہ عید گاہ کراچی کی سب سے قدیم عید گاہ ہے اور اس کی بنیاد میروں کی سندھ پر حکومت کے دوران رکھی گئی تھی۔ اس عید گاہ میں بائیں بازو کے رہنما غوث بخش بزنجو، سر حاجی عبداللہ ہارون، غلام حسین خالق دینا، سر غلام حسین ہدایت اللہ، محمد ایوب کھوڑو اور سائیں جی ایم سید نے بھی عید کی نمازیں ادا کی تھی۔
ہمارے صحافی دوست رفیق بلوچ نے عید گاہ کے حوالے سے ایک اور دلچسپ بات یہ بتائی کہ ایوب خان کی مارشل لاء کے دور میں یہ عید گاہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھی۔ یہاں ایوب خان کے خلاف احتجاجی اجتماعات ہوتے تھے اس کے بعد اجتماع کے شرکاء جب عید گاہ سے باہر نکلتے تھے تو پولیس انہیں گرفتار کرلیتی تھی اور کراچی کے اس وقت کے مضافاتی علاقوں جو ٹھٹھہ شہر سے متصل ہوتے تھے وہاں چھوڑ آتی تھی۔
ان دنوں پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ نتیجے میں احتجاج کرنے والے دو یا تین دن بعد پیدل چل کر اپنے گھروں کو پہنچتے تھے اور اس کے بعد کئی دن تک اس خوف سے کسی احتجاجی مظاہرے میں حصہ نہیں لیتے تھے۔
ممتاز محقق گل حسن کلمتی اپنی کتاب 'کراچی: سندھ کی ماروی میں' لکھتے ہیں؛
"یہ عید گاہ 250 سال پرانی ہے اور کلہوڑوں کے دور حکومت میں اس کی بنیاد رکھی گئی تھی۔"
عثمان دموہی کا خیال اس کے برعکس ہے، وہ اپنی کتاب 'کراچی تاریخ کے آئینے میں' لکھتے ہیں کہ کراچی پر انگریزوں کے قبضے کے بعد سب سے پہلے تعمیر ہونے والی عید گاہ بندر روڈ پر واقع مرکزی عید گاہ ہے اسے تقریباً 80-1879 میں تعمیر کیا گیا تھا۔
ہم نے طے کیا کہ پہلے لیاری میں واقع عید گاہ کا دورہ کیا جائے اور اس کی قدامت کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں۔ اس سلسلے میں ہماری مدد ہمارے صحافی دوست عارف بلوچ نے کی۔ انہوں نے ہمارا رابطہ عبدالعزیز نامی ایک شخص سے کرایا جو تاحال لیاری کی اس عید گاہ میں رہائش پذیر ہیں۔
ان کے والد مولوی شاہ داد ہوت اس عید گاہ میں ایک طویل عرصے تک نمازعید کی امامت کرتے رہے۔ ان کا انتقال 106 برس کی عمر میں ہوا۔ ہم ان سے ملنے کے لیے عید گاہ پہنچے، مرکزی دروازے پر ایک بہت بڑا بورڈ لگا ہوا تھا جس پر مدرسے کا نام 'جامعتہ ترتیل القرآن صدیقیہ عید گاہ ٹرسٹ' درج تھا۔
ہم اندر پہنچے، عبدالعزیز کو فون کیا وہ چند ہی لمحوں میں اپنے گھر سے باہر نکل آئے۔ مسکرا کر ہماری طرف دیکھا اور کہا کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ آپ دس پندرہ منٹ انتظار کیجئے میں نماز پڑھ کر آیا پھر بات کریں گے۔
عید گاہ کے دائیں جانب ایک مسجد تھی جس میں لوگ نماز پڑھنے کے لیے جارہے تھے بائیں جانب ایک کھلا میدان تھا جس میں بچے فٹ بال کھیل رہے تھے۔ ٹھنڈے پانی کا واٹر کولر لگا ہوا تھا.
ہم نے سوچا کہ جب تک عبدالعزیز نماز پڑھ لیں ہم عید گاہ کا جائزہ لے لیں۔ دیکھا کہ پندرہ یا سولہ سال کی عمر کے دو نوجوان ٹھنڈے پانی کے کولر پر زنجیر سے بندھے ہوئے ایک گلاس میں پانی بھر کر پینے لگے یہ 28 ویں روزے کا دن تھا۔ ہمیں خاصی حیرانی ہوئی قریب پہنچ کر ہم نے دونوں نوجوانوں سے پوچھا کیا پانی ٹھنڈا ہے؟ انہوں نے انگوٹھے کا نشان بناتے ہوئے کہا "بمبو" بلوچی میں بانس کو بمبو کہتے ہیں اور اگر آپ کسی چیز کی بہت زیادہ تعریف کرنا چاہ رہے ہیں تو بلوچی میں "بمبو" کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
ہم نے بھی نل کھول کر گلاس میں یخ ٹھنڈا پانی بھرا۔ ہمیں ان کا 'بمبو' سمجھ میں آگیا اور ساتھ ہی ذہن میں یہ خیال آیا کہ بلوچوں کا علاقہ لیاری ہے اس لیے پانی کی ٹھنڈی مشین چل بھی رہی تھی اور لوگ پانی بھی پی رہے تھے۔ کوئی اور علاقہ ہوتا تو دونوں نوجوان کم از کم شدید زخمی ضرور ہوجاتے۔
تھوڑی دیر بعد عبدالعزیز نماز پڑھ کر باہر آگئے۔ عبدالعزیز نے ہمیں بتایا کہ لیاری کی یہ قدیم عید گاہ اپنی سیاسی شناخت بھی رکھتی ہے اور یہ عید گاہ جمہوریت کی بحالی کے لیے جان دینے والوں کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے کے لیے بھی خاصی مشہور و معروف ہے۔
ان کے بقول افغانستان کے مقتول سربراہ ڈاکٹر نجیب اللہ کی اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سمیت بے شمار سیاسی کارکنوں کی غائبانہ نماز جنازہ بھی یہاں ادا کی گئی تھی۔
ہم نے ان سے سوال کیا کہ اس عید گاہ میں پہلے تو کوئی مدرسہ نہیں تھا، کیا وجہ ہے کہ اب یہاں پر ایک بہت بڑا مدرسہ ہے؟
انہوں نے بتایا کہ اس عید گاہ کی جگہ پر قبضے کے لیے محکمہ اوقاف کی ملی بھگت سے بہت سارے گروپ سرگرم ہوگئے تھے۔ چوں کہ اب اس پلاٹ کی قیمت اربوں روپے ہے تو مختلف لوگوں نے کوشش کی کہ اس کی جگہ پر کوئی کاروباری مرکز بنایا جائے۔ کراچی کے آخری قاضی نور محمد کے بیٹے قاضی منیر نے بھی 1993 میں عید گاہ کو اپنے قبضے میں لے لیا تاکہ وہ یہاں پر گودام بنا کر کاروباری سرگرمیاں کر سکے۔ لیکن عوامی احتجاج کے بعد اسے اس پلاٹ سے دستبردار ہونا پڑا۔
عید گاہ سے باہر نکلتے ہی ہم سے ایک صاحب نے پوچھا 'بچہ لوگ کیا بات ہے'؟
ہم نے ان سے معلوم کیا کہ اس عید گاہ میں کوئی مدرسہ نہیں تھا لیکن اب یہاں پر ایک مدرسہ ہے، یہ کب بنا اور اس کی کیا وجہ ہے؟
انہوں جواباً کہا میرا نام گل محمد ہے۔ میرا باپ بھی ادری نماز پڑھتا تھا۔ میں بھی ادری نماز پڑھتا ہوں۔ عید گاہ کو بچانے کے لیے سارا محلے والے لوگ نے مدرسہ بنایا۔ ابھی تم کو معلوم ہے اس مدرسے میں سارا بچہ وزیرستان اور سرحد کا ہے۔ ابھی عید گاہ تو بچ گیا لیکن یہ بچہ لوگ اگر ادھر رہ گیا تو پھر ہم لوگ کے لیے بڑا مشکل ہوجائیں گا۔
گل محمد کے مطابق اس وقت مدرسے میں تقریباً 250 کے قریب طالب علم زیر تعلیم ہیں. ہم نے کہا کہ مدرسہ تو ویران لگ رہا ہے۔ تو گل محمد بولا ابھی سارا بچہ عید منانے کے واسطے وزیرستان گیا۔
مسجد کے باہر ایک ٹیبل پر نمازیوں میں جہادی لٹریچر مفت تقسیم کیا جارہا تھا۔
اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔