نقطہ نظر

مجرم کون؟

کچھ چیزیں ڈنڈے کے زور پہ ہی چلتی ہیں، پھر آہستہ آہستہ عادت اور عادت سے فطرت بن جاتی ہیں۔

اپنے پرانے دور کی یادیں تازہ کرنے میں اور میرا ایک پروڈیوسر دوست موٹرسائیکل نکال کر سڑک پر آوارہ گردی کرنے نکل پڑے۔۔۔ ٹاور پہنچے تو ایدھی سینٹر کے سامنے پولیس موبائل دِکھی۔۔ دوست نے میرے کان میں کچھ کہا۔۔۔ جس سے میرے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔۔۔ جواب دیا کہ یار فائدہ کچھ ہونا نہیں ہے۔۔۔ اُلٹا جو تھوڑے پیسے جیب میں ہیں وہ بھی چلے جائیں گے۔۔۔

وہ بضد تھا۔۔۔ مجھے بھی کیڑا تو کاٹ ہی چُکا تھا۔۔۔ بس موٹرسائیکل کا رُخ پولیس موبائل کی طرف موڑ دیا۔۔۔ پیٹی بھائی نے اشارہ دیا۔۔۔ ہم نے شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بائیک سائیڈ میں لگا دی۔۔۔ وہ اپنا وجود لے کر ہمارے سامنے آیا۔۔۔ اور آتے ہے ہماری عزت کنگھال ڈالی۔۔ میرا مطلب کہ اوپر سے نیچے تک تلاشی لے ڈالی اور سخت لہجے میں گاڑی کے کاغذات طلب کرلئے۔۔۔

معصوم شکل نہ ہونے کے باوجود میں نے معصومیت سے جواب دیا۔۔۔ 'سرجی کاغذات تو نہیں ہیں'۔۔۔ پولیس والے میں تو جیسے جان سی آگئی۔۔۔ فوراً کہا شناختی کارڈ دکھاؤ۔۔۔۔ عرض کیا جناب وہ بھی نہیں۔۔۔ بڑے بھائی نے کہا۔۔۔ لائسنس۔۔۔ بولے وہ بھی نہیں۔۔۔ تو کہنے لگے بیٹا تھانے چلنا پڑے گا۔۔۔ شکل سے ہی ڈاکو لگتے ہو۔۔۔۔۔!

ہم تو جیسے گھبرا ہی گئے تھے۔۔۔ میرا دوست بول پڑا۔۔۔ سر پلیز ہمیں جانے دیں۔۔۔۔ امی گھر پہ انتظار کر رہی ہیں۔۔۔ وہ قہقہے لگاتا مخاطب ہوا۔۔۔ اوے تم نے مجھے پاگل سمجھا ہے؟ ایک تو جرم کرتے ہو۔۔۔ اوپر سے بھولے بنتے ہو؟

دوست بولا سر جی کون سا جرم؟ پسینہ صاف کرتے ہوئے کہنے لگا وہ تو ہم تھانے جا کر ثابت کر ہی دیں گے۔۔۔ میرا دماغ چلا۔۔۔ میں نے کہا بھائی کچھ ڈسکاؤنٹ دے دو۔۔۔ ایسا رستہ نکالو کہ آپ کا بھی بھلا ہو جائے اور ہماری بھی خیر ہوجائے۔۔

وہ کچھ دیر یہاں وہاں دیکھنے کے بعد کہنے لگا۔۔۔ اچھے گھر کے لگتے ہو۔۔۔ سمجھدار بھی ہوگے۔۔۔۔ اب جرم کیا ہے تو جرمانہ تو بھرنا پڑے گا نا؟ میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو آواز آئی۔۔۔ زرا خیال سے ۔۔۔ ٹائم بہت کم ہے۔۔۔

بیس روپے کا نوٹ اُسے تھماتے ہوئے مجھے شرم آرہی تھی۔۔۔ مگر وہ فخریہ انداز میں نوٹ کا جائزہ لے رہا تھا۔۔۔ پھر آواز آئی کہ یہ تو میری سگریٹ کا خرچہ ہوگیا۔۔۔ اب باقی موبائل میں بیٹھے آفسر کے لئے بھی کچھ ہدیہ کرو۔۔۔ دوست جھٹ سے بول اٹھا۔۔۔ سر جی غریبوں کا خیال کرو۔۔۔۔ اوے چُپ کر۔۔۔ جرم کر کے غریب بنتا ہے۔۔ میں نے پچاس کا نوٹ دکھاتے ہوئے کہا۔۔۔ بھائی اور کچھ نہیں۔۔۔ یہ آخری جمع پونجی ہے۔۔۔

آفر قبول کرتے ہوئے پیٹی بھائی نے ہمیں گھر جانے کی اجازت دے دی۔۔۔۔ اور ساتھ مشورہ بھی دیا کہ جرم نا کیا کریں۔۔۔ یہ اچھی بات نہیں۔۔۔

ہم بائیک دوڑاتے ہوئے تھوڑا آگے پان کے کیبن پر رُکے۔۔۔ ایک دوسرے کی شکل دیکھی۔۔۔ اور پاگلوں کی طرح ہنسنے لگے ۔۔۔ میرا دوست کہنے لگا۔۔۔ یار ہم بھی ویڈیو ریکارڈ کرنے کے ماسڑ ہیں۔۔۔ بیوقوف کو پتا ہی نہیں چلا کہ اُس کا جرم ریکارڈ ہو گیا ہے۔۔۔ اور کل ٹی وی پر چل رہا ہوگا۔۔۔ یار صادق یہ بتاؤ مجرم کون؟ اتنے مزے سے چند روپوں کی خاطرچھوڑ دیتے ہیں یہ پولیس والے۔۔ یہ جرم بھی ہے اور ظلم بھی۔۔۔

میں سوچنے لگا کہ آج سے پہلے جو جو رشوت خور پولیس والے ہم نے دنیا والوں کو دِکھائے۔۔ کیا انہیں سزا مِلی؟ وہ تو چند دنوں لائن حاضر رہنے کے بعد پھر سے اُسی جگہ نوکری کر رہے ہیں!

کیا عجیب قانون کے رکھوالے ہیں۔۔۔ قانون کی دھجیاں اُڑا کر، یہ امید کرتے ہیں کہ باقی شہر میں امن و امان رہے گا۔۔۔ نہ جانے کتنے ٹارگٹ کلرز، ڈاکو ڈکیٹ۔۔۔ اسٹریٹ کرمنلز ایسے ہی پچاس سو روپے دے کر بچ نکلتے ہونگے۔۔۔

پھر ہم رونا ورتے ہیں کہ ٹارگٹ کلنگز ہوتی ہیں۔۔۔ جب قانون نافذ والے خود اپنی عزت سڑکوں پر بیچ رہے ہونگے۔۔۔ ناحق بہنے والے خون کا سودا سو پچاس میں ہو رہا ہوگا۔۔۔ تو پھر معصوم انسانی جانوں کا خون بھی گلی کوچوں میں رسوا ہی ہوتا رہے گا۔۔۔

کاش قانون کے رکھوالے ایمانداری سے قانون کا نفاذ کرائیں۔۔۔ پھر کون سی ڈکیتی اور کون سا قتل۔۔۔ سارے دہشت گرد اپنی اوقات میں آجائیں گے۔۔۔ جس طرح وہ ترقی یافتہ ممالک میں رہتے ہیں۔۔۔

اگر یہ پولیس ہی ٹھیک ہوجائے تو جرائم دھیرے دھیرے ہمارے ملک کی جان چھوڑ دیں گے۔۔۔ پہلے قانون کے رکھوالوں کو سدھرنا ہوگا۔۔۔ پھر ہی عوام کی باری آئے گی۔۔ اور آج بےحس کہلانے والی قوم۔۔۔ شاید اپنے اندر کچھ احساس محسوس کرنے لگے گی۔۔۔

ایسا نہیں کہ دنیا کے دوسرے ملکوں کے عوام فرشتے ہیں۔۔۔ وہاں بھی جرائم پیشہ افراد جیتے ہیں۔۔۔ لیکن قانون کا خوف۔۔۔ اچھے اچھوں کو انسان بنا دیتا ہے۔۔۔ کچھ چیزیں۔۔ ڈنڈے کے زور پہ ہی چلتی ہیں۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ عادت اور عادت سے فطرت بن جاتی ہیں۔۔۔ ڈنڈے کی نہیں۔۔۔ امن و امان اور قانون کی پاسداری کی فطرت!

ایگزیکیٹو پرودیوسر اینڈ پروگرم اینکر ڈان نیوز

صادق رضوی

صادق رضوی ڈان نیوز میں اینکر اور ایگزیکٹو پروڈیوسر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔