پاکستان

اسلام آباد: آئی ڈی پی کیمپ میں بچھوؤں کی بھرمار

ایک سرکاری افسر کے مطابق دارالحکومت میں آئی ڈی پیز کے لیے قائم واحد کیمپ میں جان لیوا بچھوؤں کی بھرمار ہے۔

اسلام آباد: شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کے نتیجے میں اپنی جانیں بچا کر اسلام آباد آنے والوں کی جانیں اب بھی غیر محفوظ ہیں۔

جمعرات کو ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ دارالحکومت میں آئی ڈی پیز کے لیے قائم واحد حکومتی کیمپ میں جان لیوا بچھوؤں کی بھرمار ہے۔

وزارت ریاست و فرنٹیئر ریجنز (سیفرون) کے سینئر افسر طارق حیات نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ ڈویژن کے سامنے اعتراف کیا کہ یہ کیمپ غلط جگہ پر قائم کیا گیا۔

انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ یہاں صرف چالیس سے پچاس آئی ڈی پی خاندان رہ رہے ہیں جبکہ باقی اپنے رشتہ داروں، کرائے کے مکانوں یا پھر سکول کی عمارتوں میں پناہ گزین ہیں۔

تاہم ، کمیٹی ارکان نے کہا کہ کیمپ میں تقریباً پچاس لوگ موجود ہیں ، جس پر سیفرون کے عہدے دار نے کچھ نہیں کہا۔

کمیٹی کے ایک رکن کامل علی آغا نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے مفروضوں پر مبنی اعداد و شمار پر اپنے تحفظات ظاہر کیے ہیں۔

'سکول کی عمارتوں، اپنے رشتہ داروں یا کرائے کے مکانوں میں رہنے والے آئی ڈی پیز کے حوالے سے مخصوص ڈیٹا موجود نہیں'۔

انہوں نے بتایا کہ تقریباً دس لاکھ آئی ڈی پیز میں سے صرف کچھ درجن آئی ڈی پیز ایک کیمپ میں رہ رہے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ متعلقہ وفاقی اور صوبائی محکمے متاثرین کے لئے مناسب انتظامات کرنے میں ناکام رہے۔

کمیٹی کے دوسرے ارکان نے بھی کامل علی آغا کی تائید کی۔

طارق حیات نے مزید بتایا کہ افغان حکومت نے سترہ ہزار پاکستانیوں کو اسلحہ کے پرمٹ جاری کرتے ہوئے انہیں آزادانہ طور پر خوست میں نقل و حرکت کی اجازت دی۔

انہوں نے کابل کے اس پروپیگنڈا کو یکسر رد کیا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے بعد ایک لاکھ پاکستانی افغانستان نقل مکانی کر گئے۔

'ایک حکومت جو اپنے بتیس لاکھ پناہ گزینوں کو واپس بلانے میں ناکام رہی وہ ایک لاکھ پاکستانیوں کو کیسے اپنے پاس رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے'؟

سینیٹر باز محمد خان نے بتایا کہ بنوں میں مقامی آبادی اور آئی ڈی پیز کے درمیان جھڑپوں کے بعدوہاں صورتحال کشیدہ ہے۔