نقطہ نظر

وزیرستان کے اکھاڑے سے

کشتی کا تو پتا نہیں اصلی ہے یا نہیں لیکن ہم نے ان پہلوانوں کو کسرت اکٹھے ہی کرتے دیکھا ہے۔

گئے دنوں کی بات ہے، انٹرنیٹ اور لائیو سٹریمنگ تو کیا ابھی سی ڈی اور ڈی وی ڈی کا نام بھی کسی نے نہیں سنا تھا۔ اس زمانہ قبل از فیس بک میں تفریح کا ایک بڑا زریعہ وی سی آر ہوتا تھا۔ جو کھاتے پیتے گھرانوں میں تو موجود ہوتا ہی تھا، ذرا کم کھاتے پیتے گھراتے جب دل پشوری کا ارادہ کرتے تو کرایے پر حاصل کر لیا کرتے تھے۔

انہی دنوں ہمارے ایک جاننے والے کو، جو ہمارے دادا کی عمر کے ہونے کے باوجود نجانے کس رشتے سے ہمارے چچا لگتے اور کہلاتے تھے، ریسلنگ دیکھنے کا شوق ہو گیا۔

چچا مرحوم کسی پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کیا کرتے تھے اور خاصے کھاتے پیتے بلکہ کھاتے پیتے چھلکاتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ شوق کا یہ عالم تھا کہ روز دفتر سے واپسی پر محلے کی ویڈیو شاپ سے ریسلنگ کی کیسٹ لے آتے اور وی سی آر پر لگا کر دیکھتے رہتے

ان کے ریسلنگ دیکھنےکا منظر بھی کوئی معمولی نہیں تھا۔ ریسلنگ دیکھنے میں جتنا مزا انہیں آتا تھا اس سے زیادہ لطف انہیں ریسلنگ دیکھتے ہوئے دیکھنے میں تھا۔

کیسٹ وی سی آر میں ڈالنے اور اس کا ریموٹ، جو اس زمانے میں کم و بیش فٹ بھرکا ہوا کرتا تھا، سنبھالنے کے بعد وہ بڑے اہتمام سے کمرے کے بیچ پنکھے کے عین نیچے رکھی کرسی پر ٹیک لگا کر بیٹھ جایا کرتے تھے اور شو شروع ہو جاتا تھا۔

جیسے ہی ریسلر رنگ میں اترنے کے لیے ٹی وی سکرین کے کونے پر نمودار ہوتا تھا چچا کرسی چھوڑ کر کرسی کے کونے پر آ جاتے تھے۔ دوسرے ریسلر کے سامنے آتے تک کرسی کا کونہ بھی چھوٹ جاتا تھا اور چچا زمین پر آ کر ریسلر کے ہر اٹھتے قدم کے ساتھ کھسکنے لگتے۔

دونوں فریقوں کے رنگ میں پہنچنے تک چچا ٹی وی سکرین کے نیچے پہنچ چکے ہوتے تھے اور جوش کا وہ عالم ہوتا تھا کہ ریسلر کی ہڈی ٹوٹے یا بچے ٹی وی کی سکرین اگر ریسلنگ کی ایک کیسٹ نکال جائے تو غنیمت جانیے۔

اپنے ہاتھ سے کیسٹ وی سی آر میں لگانے کے باوجود چچا مرحوم کو یوں لگتا تھا کہ یہ میچ ان کے سامنے اصلی اور لایئو ہو رہا ہے۔ چچا کو ریسلنگ دیکھتا دیکھ بلکہ سن کے لگتا تھا کہ وہ ریسلرز، جنہیں ہماری چچی ننگے مشٹنڈے کہاں کرتی تھیں، چچا کی آواز، جو 'جانے نا دیجو' سے 'توڑ دے توڑ دے ٹانگ سالے کی' تک کچھ بھی ہو سکتی تھی، براہ راست سن ہی نہیں سمجھ بھی رہے ہیں۔

چچا کا خیال تھا کہ ان کم بخت ریسلرز کو کچھ معلوم نہیں کہ ریسلنگ کیسے کی جاتی ہے اور ہر ہارنے والا ریسلر دراصل ان کے مشورے پر عمل نا کرنے کی وجہ سے ہارا ہے۔

'نہیں جیت سکتا تھا یہ! جیت ہی نہیں سکتا تھا، ایسے بھلا کوئی جیتا ہے جو یہ جیتتا!'، اس قسم کے تبصرے وہ ہر چار پانچ منٹ بعد کرسی کی طرف واپس جاتے ہوئے کیا کرتے تھے کہ ایک میچ کا دورانیہ تقریبا اتنا ہی ہوتا تھا۔ اس کے بعد اگلا میچ اور چچا کا کرسی سے ٹی وی تک کا سفر دوبارہ شروع ہو جاتا۔

میں جب آپریشن ضرب عضب کے دوران آپریشن کے لیے خاص طور پر تیار کیے گئے سٹوڈیوز سے تنصرے کے لیے خاص طور پر بلائے گئے ماہرین کی باتیں سنتا ہوں تو چچا مرحوم کو یاد کر کے میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔

اسلام آباد کی کرسی سے کھسکتے کھسکتے میزبان اور ماہرین بنوں کی ٹی وی سکریں تک تو پہنچ گئے ہیں لیکن وزیرستان کے اکھاڑے تک آزادانہ اجازت انہیں ابھی تک نہیں ملی۔

میدان جنگ سے سینکڑوں میل دور بیٹھے تجزیہ کرنے والے اس ریسلنگ کے بار میں چچا مرحوم سے زیادہ کچھ نہیں جانتے کہ ان تک آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے علاوہ کچھ نہیں پہنچ رہا لیکن وہ تبصرہ ایسے کر رہے ہیں جیسے یہ بم ان کے سامنے گر رہے ہوں۔

چچا مرحوم کی طرح ہمارے مبصرین بھی اپنے پسندیدہ پہلوان کی کسی غلطی کو غلطی یا فاؤل کو فاؤل ماننے پر تیار نہیں، نتیجہ کیا نکلے گا، یا نکلے گا بھی کے نہیں اس سے قطع نظر مبصرین کا کام صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ جب گھنٹی بجی تو ہمارا پہلوان اوپر تھا۔

ابھی کچھ دن پہلے ہی ریسلنگ ایسوسی ایشن کے سابقہ ترجمان ہمیں یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ پہلے جو ہوا سو ہوا اب کے ہونے والا دنگل اور فریق مخالف کو لگنے والے ریپٹے بالکل اصلی ہیں۔

چلیے مانے لیتے ہیں کہ ہمارے پاس بھی علاوہ اس کمنٹری کے جو ایک پہلوان خود کر یا اپنے حامیوں سے کروا رہا ہے دنگل کو جاننے کی کوئی صورت نہیں۔

مسئلہ صرف اتنا ہے کہ ہم اسی دنگل کی کیسٹ اسی ویڈیو شاپ والے سے لیکر کبھی 'راہ راست' تو کبھی 'راہ نجات' کے نام سے دیکھتے رہے ہیں لیکن نا طالبان راہ راست پر آئے ہیں نا ہمیں راہ نجات نظر آئی ہے۔

اب بھی جو لوگ ہماری طرح ٹی وی پر نہیں اکھاڑے کے ساتھ بیٹھ کر یہ میچ دیکھتے اور دونوں پہلوانوں کے ایک دوسرے کو مس کرنے والے گھونسے مکے کھاتے رہے ہیں یہ کہہ رہے ہیں کہ کشتی کا تو پتا نہیں اصلی ہے یا نہیں لیکن ہم نے ان پہلوانوں کو کسرت اکٹھے ہی کرتے دیکھا ہے۔

سلمان حیدر

شاعری اور تھیٹر کو اپنی ذات کا حصّہ سمجھنے والے سلمان حیدر راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔