پاکستان

زبیر کی قسمت اور پاکستان میں دہشت گردی کی داستان

ہمارے ملک میں ناقص انوسٹیگیشن اور نااہل پراسیکیوٹرز کی وجہ سے ملزم کو فائدہ پہنچتا ہے۔

اسلام آباد: محمد زبیر جنہیں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے فورتھ شیڈیول کے تحت رکھا گیا ہے، اس کے باوجود اپنے گھر پر مقیم ہیں اور راولپنڈی پولیس کو رپورٹ کرتے ہیں، ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ خوش قسمت ہیں یا ان کی قسمت بہت خراب ہے۔ اس لیے کہ ان پر باضابطہ طور پر کسی جرم کا الزام عائد نہیں ہے۔

تاہم وہ مسلسل اس خوف کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں کہ انہیں ایک نہ ایک دن طلب کیا جاسکتا ہے اور ان کے خلاف زبانی طور پر جو الزامات عائد کیے گئے تھے، ان کے لیے قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔

درحقیقت اس کہانی میں زبیر کی قسمت سے متعلق تو کم لیکن پاکستان میں گرفتاری اور دہشت گردی کے مشتبہ افراد پر مقدمات سے متعلق الل ٹپ رویوں کے حوالے سے زیادہ مواد موجود ہے۔

افشاں کالونی راولپنڈی کے ایک رہائشی زبیر کو جون 2009ء میں گرفتار کیا گیا تھا، ان کے ساتھ بیالیس دیگر مشتبہ افراد بھی گرفتار ہوئے تھے۔ان سب پر الزام تھا کہ یہ پاکستان بھر میں ہلاکت خیز دہشت گرد حملوں پر عملدرآمد یا ان کی منصوبہ بندی میں ملؤث تھے۔

زبیر کو جون 2009ء میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر دہشت گرد حملے، جولائی 2008ء میں لال مسجد کے باہر تعینات پولیس اہلکاروں پر مہلک حملے اور راولپنڈی پیر ودھائی کے قریب مارچ 2009ء میں ایک حملے میں ملؤث کیا گیا تھا۔

تاہم زبیر فروری 2012ء میں ان تمام مقدمات سے بری ہوگئے تھے۔ لیکن اس مرحلے پر ان کی قسمت نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور ان پر شکیل آفریدی کی اعانت کا الزام عائد کردیا گیا۔

شکیل آفریدی پر الزام تھا کہ انہوں نے امریکا کے لیے القاعدہ کے سربراہ اوسامہ بن لادن کی جاسوسی کی تھی۔

سپریم کورٹ کے ایک ایڈوکیٹ لائق خان سواتی کے مطابق زبیر 2012ء میں راولپنڈی کی اڈیالہ سینٹرل جیل میں قید تھا، بعد میں اس کو پہلے تین مقدمات سے بری کردیا گیا، اور اس کیس میں ملؤث کردیا گیا جس کی سماعت خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ کی جانب سے سماعت کی جارہی تھی۔

لائق خان سواتی نے بتایا کہ اڈیالہ جیل کے سپریٹنڈنٹ نے سات مئی 2012ء کو ایک خط جمرود سب ڈویژن کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کو خط لکھا، جس میں منشیات کے کنٹرول ایکٹ کے سیکشن سات، آٹھ اور نو کے تحت زبیر کے مقدمے کی سماعت کے لیے کہا گیا تھا۔

پھر زبیر کو خیبر ایجنسی لے جایا گیا تھا۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ تقریباً اسی دوران یہی پولیٹیکل ایجنٹ کی جانب سے اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکا کی مدد کے لیے جعلی ویکسینیشن مہم شروع کرنے پر شکیل آفریدی پر غداری کے مقدمے کی سماعت ہورہی تھی۔

ان کا الزام نے واضح کردیا کہ زبیر کے خلاف حکومت کے پاس کوئی کیس نہیں تھا، اس موقع پر پولیٹیکل ایجنٹ نے ایک نئی بلی تھیلے سے برآمد کیاور دعویٰ کیا کہ زبیر ڈاکٹر شکیل آفریدی کی مجرمانہ معاونت کی تھی۔

وکیل نے کہا ’’انہوں نے میری بار بار درخواستوں کے باوجود زبیر کے خلاف نہ تو کوئی دستاویزات اور نہ ہی چارج شیٹ فراہم کی۔‘‘

لائق خان سواتی نے کہا ’’دلائل کے دوران میں نے نشاندہی کی اسامہ بن لادن ایک مطلوب دہشت گرد تھے اور یہاں تک کہ پاکستانی حکومت نے ان کے لیے رقم مقرر کی تھی اور ان کی تلاش میں مدد کرنے والے کسی بھی شخص کو وہ رقم دینے کا اعلان کیا تھا۔ لہٰذا زبیر کو مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکام نے انہیں یقین دلایا تھا کہ زبیر کو ضمانت پر رہا کردیا جائے گا۔ اس لیے کہ ان دونوں جرائم کی بھی کوئی ایف آئی آر درج نہیں تھی جس کا ان پر الزام عائد کیا گیا تھا۔

گیارہ مئی 2012ء کو اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ نے اپنے ایک خط میں لکھا کہ ’’ملزم زبیر نے ضمانت پر رہائی کی درخواست سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ لائق خان سواتی کے ذریعے دی تھی۔ ضمانت کی یہ درخواست منظور کرلی گئی ہے۔ ملزم محمد زبیر پانچ پانچ لاکھ روپے کی رقم کے دو ضمانتی بانڈ اسی رقم کے دو ضامنوں کے ساتھ پیش کرے گا۔‘‘

اس خط کی ایک نقل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راولپنڈی اور سینٹرل جیل راولپنڈی کے سپریٹنڈنٹ کوبھی ارسال کی گئی تھی۔

پھر زبیر کو گھر جانے کی اجازت مل گئی۔

اس کے نتیجے میں زبیر راولپنڈی میں دو سال سے مقیم ہیں، اور نہیں جانتے کہ ان کے سر پر لٹکی تلوار کب گر سکتی ہے۔ اگرچہ اس دوران انہیں ان الزامات کے سلسلے میں کسی کے سامنے پیش نہیں ہونا پڑا ہے۔

سینئر وکیل اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سید نایاب حسین گردیزی کہتے ہیں کہ زبیر کا ان مقدمات سے بری قرار دیا جانا ہمارے جرائم کے انصاف کے ناقص نظام کی وجہ سے تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے مقدمات میں ناقص انوسٹیگیشن اور نااہل پراسیکیوٹرز کی وجہ سے ملزم کو فائدہ پہنچتا ہے۔

زبیر کو جون 2009ء میں ایک سال قبل لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر ہوئے حملے کی منصوبہ بندی کے الزام پر گرفتار کیا گیا تھا۔

تفتیش کاروں نے الزام عائد کیا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی کے پنجاب یونٹ کا ایک رکن تھا، جو اس حملے میں ملؤث تھی۔

ٹیم کے کیپٹن ماہیلا جے وردھنے سمیت سری لنکا کے چھ کھلاڑی اس حملے میں زخمی ہوئے تھے اور چھ پولیس اہلکار اس سفاکانہ حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔

اس کے علاوہ راولپنڈی میں ویسٹرج پولیس اسٹیشن میں درج ایک کیس میں بھی اس کو نامزد کیا گیا تھا۔

یہاں اس کے نام کی ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی، جس میں پیر ودھائی موڑ کے قریب ایک خود کش حملہ کروانے کا الزام تھا۔

پندرہ مارچ 2009ء کو راولپنڈی میں پشاور روڈ پر پیر ودھائی موڑ کے قریب ایک نوجوان خودکش بمبار نے ایک سوزوکی پک اپ کو نشانہ بنایا تھا، جس کے نتیجے میں چھ افراد ہلاک اور گیارہ زخمی ہوئے تھے۔

یاد رہے کہ ایک پہلے پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت میں افتخار محمد چوہدری کی بطور چیف جسٹس آف پاکستان بحالی کے لیے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا گیا تھا۔

ایک اور کیس جس میں زبیر کو شریک ملزم ٹھہرایا گیا تھا، چھ جولائی کو میلوڈی مارکیٹ پر خودکش حملے کا کیس تھا، لیکن اس میں بھی اس کو بری کردیا گیا تھا۔

اس حملے میں پندرہ پولیس اہلکار اور دو دیگر عام شہری ہلاک ہوئے تھے، اس روز لال مسجد اور مدرسے کے خلاف جولائی 2007ء میں فوجی آپریشن کو پہلا سال پورا ہونے پر اس کی یاد میں لال مسجد شہداء کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔