بپھرے پانیوں کے ملاح
مائی بھاگی کی مشکلات کا اظہار اس کی پیشانی سے ہوجاتا ہے جبکہ اس کی جلد اپنی بیوہ بیٹی اور یتیم نواسے نواسیوں کی فکر سے سلوٹوں سے بھر چکی ہے۔ اس کی کمزور انگلیاں اپنے چھوٹے بھائی کی یادگاری اشیاءجیسے شناختی کارڈ اور راجکوٹ سینٹرل جیل سے آنے والے خطوط کو ٹٹول رہی ہیں۔
کراچی کے علاقے جسے ماہی گیروں کا گاﺅں بھی کہا جاتا ہے، ریڑھی گوٹھ میں رہائش پذیر اس ستر سالہ اس ضعیف خاتون کا کہنا ہے " ہم نے برسوں روتے اور اپنے پیاروں کا انتظار کرتے ہوئے اس حیرت میں گزار دیئے کہ وہ کن حالات میں زندگی گزار رہے ہوں گے"۔
پندرہ سال قبل جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کارگل کے پہاڑوں پر ایک جنگ لڑی جارہی تھی، ایک طاقتور طوفان نے جنوبی ساحلی پٹی کے علاقوں کو نشانہ بنایا، جس سکے دوران ماہی گیروں کی متعدد چھوٹی کشتیاں ڈوب گئیں، مائی بھاگی کے خاندان کے بھائی اور داماد سمیت چار افراد کو طوفان سے تو بچالیا گیا مگر اس کے بدلے میں انہیں اپنی پوری زندگی ایک ہندوستانی جیل میں گزارنا پڑی۔
کشمیر کی سرحد پر تناﺅ ہمیشہ سے پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات میں کشدگی کا سبب بنا ہے، مگر اس کا سب سے زیادہ اثر ہزاروں غریب ماہی گیروں اور ان کے خاندانوں پر پڑا ہے جن میں سے اکثر اس حریفانہ تعلقات کا بدترین شکار بن چکے ہیں اور اس کا نوٹس تک نہیں لیا جاتا۔
پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی اور انڈین کوسٹ گارڈز بحیرہ عرب میں سندھ اور گجرات میں غیرمتعین اور متنازعہ سرحدی حدود عبور کرنے پر سینکڑوں ماہی گیروں کو حراست میں لیتے رہتے ہیں، یہ قیدی اپنے خاندانوں کے کفیل ہوتے ہیں، مگر انہیں برسوں تک جیلوں میں رہنا پڑتا ہے اور پھر اعتماد سازی کے اقدامات کے نتیجے میں انہیں رہائی مل جاتی ہے۔
جس کے بعد وہ گھر واپس پہنچتے ہیں جہاں ان کے خاندان شدید جذباتی، نفسیاتی اور مالی تناﺅ کا شکار ہوتے ہیں۔
منتشر خواب
دل پگھلا دینے والی کہانیوں میں سے ایک مائی بھاگی کے نواسے عبدالغنی کی ہے جس نے اپنی پوری زندگی اپنے والد نواز علی جٹ کو دیکھنے کی خواہش میں گزاری ہے۔
نواز علی کو اس وقت ہندوستانی فورسز نے پکڑ لیا تھا جب عبدالغنی صرف ایک ماہ کا تھا اور اب تیرہ سال کی عمر میں اس کی اپنے والد سے ملنے کا خواب اس وقت منتشر ہوگیا جب ایک طیارے میں نواز علی کی میت کو گھر واپس لایا گیا۔
نواز علی مبینہ طور پر عمر قید گزارتے ہوئے ایک طویل بیماری کے باعث ہلاک ہوگیا تھا۔
اروند ایک 75 سالہ ہندوستانی ماہی گیر ہے، جس کی قسمت بھی کچھ ایسی ہی ثابت ہوئی جب وہ جامشورو جیل میں ٹی بی کا مریض بن کر دنیا سے چل بسا، اور اس کی لاش کو خاندان کو واپس بھیجنے کے لیے قانونی اور سفارتی کارروائیوں کو پورا کرنے میں ایک ماہ کا عرصہ لگ گیا۔
اس بات کا تعین تو مشکل ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف کے کتنے خاندانوں کو اس طرح کے آزمائشی حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے، تاہم لیگل ایڈ آفس کراچی کے مرتب کردہ ڈیٹا کے مطابق پاکستان نے اگست 2010ءسے اب تک 21 بار قیدیوں کے تبادلے کے دوران سترہ سو سے زائد ہندوستانی ماہی گیروں کو رہا کیا ہے، تاہم رہائی کے بعد نئی گرفتاریوں سے قیدیوں کی تعدادزیادہ کم نہیں ہوپاتی۔
پاکستان فشر فوک فورم کی 2008ءکی ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ بیس سال کے دوران پاکستان نے لگ بھگ 4516 ہندوستانی ماہی گیروں اور 729 کشتیوں کو حراست میں لیا ہے۔
اس وقت کم از کم 237 ہندوستانی ماہی گیر پاکستانی جیلوں میں موجود ہیں، جبکہ 116 پاکستانی ماہی گیروں کو ہندوستان نے بند کر رکھا ہے۔
پاکستان فشر فوک کے ایک رضاکار کمال شاہ کا کہنا ہے کہ یہ تمام غریب افراد روزگار کی تلاش کررہے ہوتے ہیں، یہ واحد کام ہے جو انہیں آتا ہے، وہ مچھلی کے شکار کے لیے نکلتے ہیں، آپ انہیں روزگار کی کوشش سے روک نہیں روک سکتے۔
انکا کہنا تھا کہ جب ایک ایسا ماہی گیر گرفتار ہو جو اپنے خاندان کا واحد کفیل ہو تو پھر خواتین کو بچوں کی پرورش اور مالی بوجھ کو خود اٹھانا پڑتا ہے۔
کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری کی بستی بنگالی پاڑہ کی رہائشی شمع کے لیے اپنے شوہر اور نوعمر بیٹے کے غائب ہونےکا مطلب یہ تھا کہ اس کے بچے تعلیم سے محروم رہ جائیں گے۔
سب سے پہلے تو شمع کو لگا کہ اس کے شوہر اور بیٹے کی کشتی گہرے سمندر میں ڈوب نہ گئی ہو، مگر دو ماہ پہلے محمد علی کو اپنی بیوی کے نام ایک خط لکھنے کی اجازت ملی جس کے بارے میں بتاتے ہوئے شمع کا کہنا تھا " ہم بیمار ہونے کی حد تک فکر مند ہیں، پہلے ہمیں لگتا تھا کہ وہ ایک ہفتے میں واپس آجائیں گے مگر اب مھسوس ہوتا ہے کہ یہ ہمیشہ کے لیے گم ہوگئے ہیں"۔
آٹھ بچوں کی ماں شمع کو مجبوراً سلائی مشین سنبھالنا پڑی مگر اس سے اتنی آمدنی نہیں ہوتی جس سے وہ اپنے بچوں کا پیٹ بھرسکیں تو بچوں کے اسکول کی فیس جمع کرانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
شمع کے بقول " پہلے میرے بچے ایک مقامی اسکول میں پڑھتے تھے مگر میرے شوہر کے پکڑے جانے کے بعد انہیں باہر نکال دیا گیا کیونکہ میں دو سو روپے ماہانہ فیس ادا نہیں کرپائی تھی۔ اس کے بعد میں نے انہیں ایک مدرسے میں ستر روپے ماہانہ کے عوض داخل کرادیا، مگر جب میں وہ بھی ادا کرنے میں ناکام رہی تو انھوں نے بتدریج میرے بچوں کو پڑھانے سے انکار کردیا، میرے بچے دو سال سے ان حالات کے شکار ہیں"۔
سرحد کی دوسری جانب بھی گرفتار کئے جانے والے ہندوستانی ماہی گیروں کے خاندانوں کو بھی اسی طرح کی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ ریاست گجرات کے ایک ماہی گیر جگدیش کے پکڑے جانے کے بعد اس کی بیوی اہلیہ کانتا نے دو ہزار روپے ماہانہ میں برتن دھونے کی ملازمت کرلی، جبکہ گھر کے اخراجات پورے نہ ہونے پر کانتا نے اپنی دو بیٹیوں کو اسکول سے بھی نکال لیا۔
ماہی گیری سے خالی پیٹ رہنا بہتر ہے
انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ سرحدی کنٹرول اور ماہی گیروں کی گرفتاری جیسے مسائل کو سیکیورٹی نظریئے کی بجائے انسانی ہمدردی کے پہلو سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے معروف سماجی کارکن انصار برنی کا اس بارے میں کہنا ہے " انہیں گرفتار اور ان کی کشتیوں کو ضبط کرنے کی بجائے آخر آپ میری ٹائم فورسز کو واپس کیوں نہیں بھیج دیتے؟ آپ سمندر میں دیوار تعمیر نہیں کرسکتے، کیا کرسکتے ہیں؟ اگر تنازعہ شکار کے اوپر ہے تو دونوں ممالک کی حکومتیں مچھلیوں کو پاسپورٹس کیوں جاری نہیں کرتیں؟ آخر ان غریب افراد کی مشکلات میں مزید اضافہ کرنے کا مقصد کیا ہے؟۔
انھوں نے کہا کہ یہ وقت ہے کہ دونوں ممالک اس مسئلے کا کوئی مستقل حل تلاش کریں۔
تپان کمار بوس پاک انڈیا پیپلزفورم فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ کے سابق چیئرپرسن ہیں، انہیں لگتا ہے کہ جب تک سمندری سرحدی تنازعہ حل نہیں ہوجاتا اس مسئلے کا کوئی طویل المعیاد حل نکالا نہیں جاسکتا۔
انکا کہنا ہے " اصل مسئلہ وہ رویہ ہے جو ان کیسز کو حل کرنے کے دوران اپنایا جاتا ہے، جسے زیادہ انسان دوست بنایا جاسکتا ہے، یہ واضح طور پر بہت غریب لوگ ہوتے ہیں، یہ ہر اس جگہ چلے جاتے ہیں جہاں زیادہ شکار کی توقع ہے، اس واحد منطقی حل یہی ہے کہ یا تو انہیں ایک انتباہ کے بعد واپس بھیج دیا جائے یا ان پر حدود کی خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کیا جائے، انہیں غیرمعینہ مدت تک قید میں رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں"۔
2007ءمیں دونوں ممالک نے ریٹائرڈ ججز پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی تھی تاکہ ان قیدیوں کے بارے میں سفارشات پیش کرسکیں، اس کمیٹی نے دونوں حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ قیدیوں کے تفصیلی فہرستوں کے تبادلے کو معمول بنائیں، گرفتاری کے ایک ماہ کے اندر ہی قونصلر کی رسائی اور خصوصی یا فوجی قوانین کے تحت سزاﺅں کو ختم کیا جائے۔
اٹھارہ سالہ دھرما ملیر جیل کے باہر گھاس پر بیٹھا اپنے نمبر کو پکارے جانے کا انتظار کررہا ہے۔ وہ خود کو خوش قسمت قرار دیتا ہے کیونکہ اسے پکڑے جانے کے بعد صرف آٹھ ماہ میں ہی رہائی مل گئی۔ بس اب وہ وہ بہت جلد ہی مہاراشٹر میں اپنے خاندان سے دوبارہ ملنے کا انتطار کررہا ہے۔
دھرما ان ڈیڑھ سو ہندوستانی قیدیوں میں سے ایک ہے جنھیں مئی میں وزیراعظم نواز شریف نے اپنے نومنتخب ہندوستانی ہم منصب نریندر مودی کی تقریب حلف برادری میں شرکت کے لیے نئی دہلی کے دورے کے موقع پر جذبہ خیرسگالی کے طور پر رہا کرنے کا اعلان کیا تھا، جبکہ مودی نے بھی 32 پاکستانیوں کو جوابی طور پر رہا کیا۔
دھرما کا اب کہنا ہے " اگر مجھے بھوکے پیٹ بھی سونا پڑا تو بھی میں اب ماہی گیری کا پیشہ دوبارہ کبھی نہیں اپناﺅں گا۔ میں اب اپنے گاﺅں میں مزدور کی حیثیت سے کام کروں گا، یہ کام میرے لئے نہیں، میں اپنے گھر سے بہت زیادہ دیر تک دوری برداشت نہیں کرسکتا۔
عدالتی کمیٹی کی تشکیل کے سات برس بعد بھی ان غریب ماہی گیروں کی زندگیاں اور روزگار ہوا میں معلق ہے، پاکستانی یا ہندوستانی کسی حکومت نے عدالتی کمیٹی کی سفارشات پر تاحال عملدرآمد نہیں کیا ہے۔
مائی بھاگی ابھی تک اپنے بھائی کی منتظر ہیں اور توقع ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود وہ ایک دن واپس آجائے گا۔ نواز کی موت کے بعد مائی بھاگی کو ڈر ہے کہ اس کے بھائی کی بھی قسمت ایسی ہی نہ ہو" ہم غریب لوگ ہیں، کسی کو ہماری پروا نہیں اور نہ کوئی ہماری بات سنتا ہے، میں بس اپنے بھائی کو دوبارہ دیکھنا چاہتی ہوں"۔
واپس ابراہیم حیدری کے ایک گھر کے مکان میں چلتے ہیں، جہاں شمع اور محمد علی دو سالہ غیرحاضری کے دوران اپنے خاندان کی مشکلات بیان کررہے ہیں۔
اپنے چہرے پر جبری مسکراہٹ تو بکھیر لی مگر شمع کی آنکھوں میں آنسوﺅں کے آثار محسوس کئے جاسکتے ہیں، وہ اپنے شوہر کے سامنے بیٹھی ان الفاظ سے اس کی ہمت بڑھا رہی ہے "میرا دل اس بات کو تسلیم نہیں کرتا اور میں اسے اب کبھی سمندر میں نہیں جانے دوں گی"۔
اس کے شوہر نے ٹھنڈی سانس بھری اور اپنی نظریں جھکالیں، اور مجرمانہ احساس کے ساتھ خاموشی کا لمحہ گزر گیا۔
شمع نے مزید کہا " مگر جیسا آپ جانتے ہیں کہ میرا بیٹا سنتا نہیں، وہ کسی سے ڈرتا نہیں، وہ پہلے ہی فشنگ ٹرپ پر جاچکا ہے، اگر آپ کے گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوگا تو پھر آپ اور کربھی کیا سکتے ہیں"۔
محمد علی کا کہنا تھا " ہم ماہی گیر ہیں اور ہم یہی کام کرسکتے ہیں"۔