پناہ گزین اور سندھ
شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن سے متاثرہ افراد کی سندھ میں بغیر رجسٹریشن اور بلا روک ٹوک داخلہ پر سندھی پریس میں تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ گزشتہ دس روز سے اخبارات، اداریوں، مضامین اور کالموں کے ذریعے ان کی آمد اور امکانی مستقل رہائش پر رائے زنی کر رہے ہیں اور خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اتنی بڑی آبادی کی سندھ کے شہروں میں آبادکاری سے شہروں کی ڈیموگرافی تبدیل ہوجائے گی جس کے اثرات صوبے کی معیشت، سماجیت اور سیاست پر بھی پڑیں گے۔ اخبارات کا خیال ہے کہ اس سے خود ان شہروں کے مزاج اور رویے بھی سخت گیر ہوجائیں گے۔
"روزنامہ کاوش" اداریے میں لکھتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن میں بے گھر ہونے والے پورے ملک میں پھیل جائیں گے۔ لیکن سندھ چونکہ باہر کے ہر شخص کے لئے پر کشش رہا ہے، لہٰذا خدشہ ہے کہ ان کی اکثریت سندھ کا ہی رخ کرے گی۔ اطلاعات ہیں کہ سندھ میں رجسٹریشن اور چیکنگ کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں بے گھر افراد کراچی پہنچ چکے ہیں۔
حکومت سندھ کے اس اعلان کی ابھی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ سندھ کے سرحدی مقامات پر متاثرہ لوگوں کے لئے کیمپ قائم کر کے ان کی رجسٹریشن کی جائے گی۔ مگر یہ محض اعلان ہی رہا۔ ممکن ہے کہ حکومت سندھ اس معاملے میں غیر سنجیدہ ہو۔ یا پھر اعلانات پر عمل نہ کرنا اپنا ریکارڈ توڑنا نہیں چاہتی ہو۔ نہ ٹرینوں میں اور نہ ہی سڑکوں پر گاڑیوں کی چیکنگ ہے۔ اور نہ ہی کہیں رجسٹریشن سینٹر قائم کئے گئے ہیں۔
ہم اہم معاملات پر بھی یو ٹرن لیتے ہیں۔ پہلے یہ کہا کہ "بس بہت ہوچکا ان متاثرہ افراد کو اس صوبے میں ٹہرایا جاسکتا۔" پھر یو-ٹرن لے کر یہ موقف اختیار کیا گیا کہ؛ "متاثرین کی مرضی ہے وہ جہاں چاہیں جائیں اور رہیں۔" یہ دونوں موقف دو الگ انتہاؤں کو ظاہر کرتے ہیں۔
ترقیاتی کام نہیں ہوئے تو بھی گزارا ہو جائے گا۔ روزگار نہیں ملا تو بھی معاملات چلتے رہیں گے۔ لیکن حکومت کی اس طرح کی مہربانیوں کے انتہائی سنگین نتائج نکلیں گے۔ جو ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنے پڑیں گے۔
روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ اس وقت بھی سندھ میں لاکھوں کی تعداد میں باہر کے لوگ آباد ہیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ شناختی کارڈ ہو یا کوئی اور دستاویزات تارکین وطن یا ملک کے دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کو آسانی سے مل جاتا ہے۔ وہ سندھ میں زمینوں اور دیگر املاک کے مالک بن گئے ہیں۔ ہائی ویز اور دیگر اہم روڈز ان کے قبضے میں ہیں۔ یہ آبادی چوکس ہے۔ مقامی لوگوں کو شہروں میں جگہ نہیں دی جاتی، صوبے کے چھوٹے خواہ بڑے شہروں میں کاروبار ان کے ہاتھ میں ہے۔ ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ کہاں سے آئے ہو، کب تک رہوگے؟
روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار ارشاد لغاری لکھتے ہیں کہ ہر دوسرے سال کسی حادثے یا بہانے سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ سندھ آجاتے ہیں اور اس کے بعد جانے کا نام ہی نہیں لیتے۔ صوبائی حکومت کہتی ہے کہ انہیں کیمپوں تک محدود کیا جائے گا؟ کیا عملی طور پر واقعی یہ ممکن ہے؟ وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ اب تک ایک لاکھ افراد سندھ پہنچ چکے ہیں جن میں بعض دہشتگرد بھی شامل ہیں۔ پولیس کہتی ہے کہ کراچی میں طالبان کے چالیس گروپ سرگرم ہیں۔
روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ ملک میں جاری دہشتگردی کی وجہ سے ملک کے عوام اور خاص طور پر فاٹا اور شمالی وزیرستان کے عوام بڑے مصائب کا شکار ہیں۔
ان مصائب کو منہ دینا خیبر پختونخوا سمیت ملک کے تمام ذمہ داری ہے۔ لیکن بعض سیاسی جماعتیں ایڈہاک رویوں کی وجہ سے صرف ایک جملہ ادا کر کے اپنی ذمہ داری پوری کررہی ہیں کہ؛
"سندھ میں ان بے گھر لوگوں کے رہنے کا بندوبست کیا جائے۔"
اس جملے کے پیچھے بظاہر خیبرپختونخوا حکومت کی نااہلی نظر آتی ہے۔ لیکن انہوں نے بہتر سمجھا کہ ان لاکھوں بے گھر افراد کے بوجہ کو ہٹا کر کسی اور کے سر پر ڈالا جائے تاکہ اپنے صوبے میں باقی معاملات سے نمٹا جائے۔ اس ایک جملے سے دوسرے صوبے یعنی سندھ کے ساتھ ظلم ہوگا، یہاں کے لوگوں کو کن تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اس کے بارے میں سوچا ہی نہیں گیا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے دوسرے صوبے، سیاسی جماعتیں اور مختلف رہنما ایک ہی جملہ ادا کر کے فرض پورا کرنے کے بجائے شمالی وزیرستان کے عوام کی بہتری کے لئے خود کام کریں۔ سندھ کو چاہئے کہ ان لاچار اور بے گھر انسانوں کی جو بھی مدد کی جاسکتی ہے وہ ان کے علاقے میں کی جائے۔ یعنی ان کو در در دھکے کھانے کے بجائے اپنے علاقے میں ہی مدد پہنچائی جائے۔