مذہبی معاملات پر عدم برداشت کے رویے
جب مذہب پر سائنسی طرز فکر کی بات آتی ہے تو پاکستانی معاشرہ دیگر اسلامی ممالک کے مقابلے میں بالکل مختلف نظر آنے لگتا ہے۔
ہم عموماً اپنے صدیوں پرانے طریقوں سے مواد کو جانچتے ہیں حالانکہ ارگرد بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہوتا ہے، دوسرا یہ کہ ہمیں اس بات کو مان لینا چاہیے کہ ہم مختلف مذہبی نکتہ نظر کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور ہمیں اپنے خیالات دیگر پر زبردستی تھوپنا پسند ہے۔
ڈاکٹر محمد شکیل اوج کی نئی کتاب 'افکار شگفتہ' کا دیباچہ تحریر کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود نے ان خیالات کا اظہار کیا:"سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ گزشتہ 65 سال کے دوران یا پاکستانی معاشرہ کئی وجوہات کی بناء پر مذہبی عدم برداشت کا شکار ہوچکا ہے، اور اب یہاں کسی ایسے شخص کے لیے کوئی جگہ نہیں جو مختلف رائے کا اظہار کرتا ہو، چاہے وہ علم اور تحقیق کی بناء پر ہی بات کیوں نہ کررہا ہو۔ یہ کتاب چند مذہبی مسائل کو اسلامی نکتہ نظر کے ساتھ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق دیکھنے کی دلیرانہ کوشش ہے۔"
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر طاہر مسعود نے اپنے دیباچے میں اس کتاب کی اہمیت اور ضرورت کی وضاحت کردی ہے جو آج ناصرف پاکستانی مسلمان بلکہ پوری مسلم امہ کو درپیش مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
کراچی یونیورسٹی کی اسلامک اسٹیڈیز فیکلٹی کی شائع کردہ اس کتاب کے تحقیقی مضامین میں مصنف نے اسلامی موضوعات پر ابہام دور کرنے کی کوشش کی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کوشش کے دوران کچھ حساس مسائل کو مختلف نظریے سے بھی دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایسے حساس معاملات جن میں سے کچھ کو متنازعہ بھی کہا جاسکتا ہے، کو قرآنی احکامات اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں موضوع بحث بنایا گیا ہے، اس کوشش کے دوران مصنف نے ناصرف خود کو کسی مکتبہ فکر کی سوچ سے دور رکھا ہے بلکہ انہوں نے ہر مکتبہ فکر کے عالموں کے ریفرنس بھی دیے ہیں۔
اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر محمد شکیل اوج کراچی یونیورسٹی کی اسلامک اسٹیڈیز فیکلٹی کے پروفیسر اور ڈین ہیں، انہوں نے اس سے پہلے کافی کتابیں تصنیف کی ہیں، جبکہ انہوں نے اسلامیات کے لیے ایچ ای سی میں تسلیم کیے جانے والے تحقیقی جرنل التفسیر کو بھی ایڈٹ کیا ہے۔
مگر جو چیز ڈاکٹر عوج کو عام مذہبی مفکرین اور محققین سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے تحقیقی تجزیوں میں اسلام کو سمجھنے کے لیے جدید اور منطقی طرز فکر کا استعمل کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ اسلامی عقیدے کے بنیادی ذرائع یعنی قرآن مجید اور سنت سے مضبوطی سے جڑے رہتے ہیں۔
وہ عام طور پر ایک مضمون کا آغاز قرآن مجید کے کسی حوالے سے کرتے ہیں، جس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی کسی حدیث کا حوالہ آتا ہے جو کہ متعلقہ موضوع سے متعلق ہوتی ہے اور پھر اسلامی حدود اور قرآن کی تفسیر وغیرہ کا رخ کرتے ہیں، مگر جب وہ کسی مسئلے کا مختلف تصور پیش کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں جدید سائنسی اور منطقی پہلو ہوتے ہیں، اپنے آخری تجزیے میں ڈاکٹر عوج اپنی رائے کا اظہار اس ڈھنگ سے کرتے ہیں کہ وہ قدامت اور جدید خیالات کے مقابلے میں متوازن محسوس ہوتی ہے۔
مختلف معاملات میں ہوسکتا ہے کہ کوئی ڈاکٹر اوج سے اتفاق کرے یا نہ کرے مگر اختلاف رائے کی اسلام بھی حوصلہ افرائی کرتا ہے (تاہم آج کی دنیا میں یہ سننا کافی عجیب لگتا ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ اسلام مذہبی معاملات میں خیالات کے اختلاف کے اظہار کی حوصلہ افزائی کرتا ہے)۔
آج ہمیں سب سے زیادہ ضرورت بھی معاملات کو مختلف تصور سے دیکھنے اور اپنے خیالات سے مختلف نکتہ نظر کا احترام کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر اگر وہ تحقیق پر مبنی ہو اور ان میں منطقی اور غیرجذباتی رائے کا اظہار کیا گیا ہو، اور یہی وہ طریقہ کار ہے جو ڈاکٹر اوج کافی عرصے سے اختیار کیے ہوئے ہیں۔
جدید علم اور سائنسی طرز فکر کے ساتھ ایک اور خوبی ایسی ہے جو ڈاکٹر اوج کو دیگر عالمین یا روایتی علماء سے جدا کرتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنی حدود جانتے ہیں، وہ کسی بات کو درست تسلیم کروانے پر بضد نہیں ہوتے بلکہ اس پر مزید تحقیق کرتے ہیں، زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں ان کے خیالات کافی مختلف تھے۔
کتاب کے آغاز میں انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان کے خیالات میں گزرے برسوں کے دوران تبدیلی آئی ہے اور وہ زیادہ غیرجانبدار ہوگئے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ کوئی ڈاکٹر اوج کو اس احساس کے ساتھ غیر اسلامی عالم قرار دے کہ وہ دنیا کے بارے میں تنگ نظری سے بھرے خیالات نہیں رکھتے، یا وہ خودساختہ مذہبی عالمین کے مقابلے میں غیرمعمولی طور پر مختلف راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔