بدر خلیل: ایک عہد کا اختتام
یہ کمرہ ڈوپٹوں، چوڑی دار، ساڑھیوں اور غراروں سے بھرا پڑا ہے جو انھوں نے متعدد ٹیلیویژن ڈراموں اور سیریلز میں کام کے دوران پہنے اور یہ تو سب کو ہی معلوم ہے کہ وہ 1968ءسے ابھی تک اپنے کام سے تھکی نہیں۔
انتہائی نفاست سے فولڈ کئے گئے کپڑوں کے بنڈل پر ہمالیہ کی ایک خوبصورت بلی لیٹی ہوئی تھی ، جبکہ بدر خلیل بات کرتے ہوئے احتیاط سے اپنے چائے کے کپ میں چینی ڈال رہی تھیں۔
“میں نے اپنے تمام غیر ضروری کپڑے کسی مستحق کو دینے کا فیصلہ کیا ہے، میں جانتی تھی کہ ایک دن مجھے شوبز کو خیرباد کہنا پڑے گا مگر زیادہ تکلیف اس بات سے ہو رہی ہے کہ میں افسردگی کے احساس کے ساتھ رخصت ہو رہی ہوں"۔
مجھے لگتا ہے کہ مجھے استعمال کرکے پھینک دیا گیا ہے اور انڈسٹری کو اب میری کوئی ضرورت نہیں۔
طویل عرصے تک غور و فکر اور منصوبہ بندی کے بعد آخر کار بدر خلیل نے اپنا سامان باندھ کر کینیڈا اپنے بیٹے کے پاس چلے جانے کا فیصلہ کرہی لیا، " اس سے پہلے میں اس سے ہر پانچ یا چھ ماہ میں ملنے کے لیے جاتی تھی اور پھر واپس آجاتی تھی، مگر اس بار میں ہمیشہ کے لیے جارہی ہوں"۔
یہ بزرگ اداکارہ جو ہر کردار میں انگوٹھی کے نگینے کی طرح فٹ ہوجاتی ہیں، چاہے وہ شہزاد خلیل کے ڈرامے بی جمالو کا بھوت ہو، تنہائیاں کی آنی، اور ان کہی کی ذکیہ کو بھی کون بھول سکتا ہے، اور حال ہی میں قدوسی صاحب کی بیوہ میں عقیلہ بوا یا شک میں ظالم ساس کا کردار، اس کی چند مثالیں ہیں۔ تو پھر ان کے جیسے ایک اداکار کو شوبز میں اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد افسردگی کا احساس کیوں ہورہا ہے؟
" مجھے لگتا ہے کہ مجھے استعمال کرکے پھینک دیا گیا ہے اور انڈسٹری کو اب میری کوئی ضرورت نہیں۔ گزرے برسوں میں کریو اور ساتھی اداکار تو میرے ساتھ اچھے رہے مگر مجھے لگتا ہے کہ چینیل مالکان اور پروڈکشن ہاﺅسز کے مالکان سنیئرز کے ساتھ ویسا سلوک نہیں کرتے جیسا کیا جانا چاہئے، ان کا رویہ کچھ ایسا ہوتا ہے۔ بدر خلیل؟ اس کا نام ڈال دو اور پھر کچھ دن بعد نکال دینا۔ میرا نام ہمیشہ کریڈٹس میں شامل نہیں ہوتا چاہئے میں نے مضبوط مخالف یا سپورٹ رول ہی کیوں نہ ادا کیا ہو، میرے مناظر کو اسٹلز یا پروموز کا کبھی حصہ نہیں بنایا جاتا، میں اپنے ڈرامے اکثر نہیں دیکھتی تاہم اگر مجھے موقع ملے تو کبھی نہ کبھی مجھے ضرور حیرت ہوگی کہ آخر کچھ مناظر اتنے لمبے کیوں ہیں اور کچھ مناظر کو نشر کیوں نہیں کیا گیا"۔
گزشتہ تین برسوں کے دوران بدر خلیل کو محسوس ہوتا رہا تھا کہ وہ کسی پہاڑی سے ٹکرا گئی ہے یا اپنی زندگی کے فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ " میں دیانتدار، راست گو اور وقت کی پابند ہوں، میں نے اپنے کام میں ہمہ گیری، مقدار اور معیار دیا، میں نے کبھی معاوضے کو بڑھانے پر اصرار یا سودے بازی نہیں کی، مجھے اس میں بھی کبھی دلچسپی نہیں رہی کہ کس کو کیا معاوضہ ملتا ہے اور مجھے کیا قبول کرنا چاہئے، جب مجھے محسوس ہوا کہ میں نے حنا بیات، شمیم ہلالی، ثمینہ پیرزادہ اور دیگر کے جیسی ہی کردار ہی ادا کررہی ہوں تو میں نے معاوضہ پر شرائط بڑھا دی، میں نہیں جانتی کیوں؟ میں ایک اچھی اداکارہ ہوں اور بہت زیادہ سنیئر بھی، تو کیا وہ مجھ سے زیادہ اچھی اداکارائیں ہیں؟
" ثمینہ پیرزادہ شروع میں بہت زیادہ صلاحیت نہیں رکھتی تھی مگر پھر اس نے ہر طرح کے کردار ادا کرنے شروع کئے، بالکل ویسے جیسے اچھے کرداروں کے بعد شبانہ اعظمیٰ کی صلاحیت کو پالش کیا گیا، تاہم مجھے لگتا ہے کہ سمیتا پاٹل شبانہ سے زیادہ باصلاحیت تھی۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ کوئی بھی ایسا نہیں جس کا متبادل موجود نہ ہو اور میں اس بات کو نہیں کہتی کہ میں بہترین ہو مگر کیا انڈسٹری میں گزارے جانے والے 47 برس کوئی اہمیت نہیں رکھتے؟
چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے وہ پورے جوش سے گفتگو کررہی تھیں " میں نے اس وقت محنت سے کام کیا جب شہزاد خلیل دنیا سے گزر گئے، میں نے اپنے لڑکوں کی پرورش کی، تمام والدین ایسا کرتے ہیں اور ان دنوں کو یاد نہیں رکھتے مگر میری زندگی آسان نہیں تھی۔ میں نے کبھی کسی کردار کی بھیک نہیں مانگی اور نہ ہی کسی کے حق پر ڈاکہ مارا، ایسے دن بھی میری زندگی میں آئے جب میں کردار لیتی اور کہتی کہ میں یہ کیا کرنے لگی ہوں؟ مگر پھر میں سوچتی کہ چلوں کرہی لیتے ہیں کم از کم بلوں کی ادائیگی تو ہو جائے گی"۔
تو ان کے خیال میں آخر کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے انہیں بظاہر سائیڈ لائن کردیا گیا ہے؟
" ہوسکتا ہے کہ میں نہ جانتی ہوں کہ خود کو کیسے مارکیٹ کروں، میں پی آر کرنا نہیں جانتی، میں اپنے پاس آنے والے ہر کردار کو قبول کرلیتی ہوں، میں کسی گروپ کا حصہ نہیں کیونکہ میں ایک گھریلو ٹائپ خاتون ہوں، میں چینلز مالکان یا پروڈیوسرز کے دفاتر کے چکر لگانے کی بجائے اپنے خاندان اور پوتے پوتیوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتی ہوں۔ اس کے علاوہ میں جھوٹ نہیں بولتی اور لوگ اپنے منہ پر سچ کو قبول نہیں کرتے، اگر میں کچھ پسند نہیں کرتی تو اپنے جذبات کو دباتی یا چھپاتی نہیں۔
میرے مرحوم شوہر مجھے ڈپلومیٹک بننے کا کہتے رہتے تھے مگر میں جب بدل نہیں سکی تو اب ایسا بالکل نہیں ہوسکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر میں کچھ پسند کروں تو میں پورے دل سے اسے سراہتی ہوں، عائشہ خان نے ملائشیاء میں ایک شوٹ کے دوران میرے ساتھ بہت برے رویے کا مظاہرہ کیا تھا جس نے مجھے کافی تکلیف پہنچائی تھی، مگر جب اس نے ایک ڈرامے میں زبردست کام کیا اور مجھ سے اسٹیج پر کمنٹ دینے کا کہا گیا تو میں نے اسے کھلے دل سے سراہا کیونکہ اس نے واقعی بہترین کام کیا تھا۔ جب وہ مجھ سے ملی تو اس نے پوچھا کہ میں نے اس کی اتنی تعریف کیوں کی جبکہ میں تو اس سے اپ سیٹ تھی؟ میں نے اسے بتایا کہ میں ابھی بھی خوش نہیں مگر میں خود کو سچ بولنے سے روک نہیں سکی"۔
بدر خلیل کا کہنا تھا کہ آج کے ڈرامے گلیمر، نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے گرد گھومتے ہیں اور پھر بھی کہا جاتا ہے کہ نیا ٹیلینٹ ناپا سے آرہا ہے " وہ وہاں کیا سیکھتے ہیں؟ حد سے زیادہ خوداعتمادی اور سنیئرز کا لحاظ نہ کرنا؟ فواد خان کا اپنا ایک میک اپ آرٹسٹ اس لیے ہے کیونکہ ہمسفر ہٹ ہوگیا ہے؟ ان لوگوں کا کیا خیال ہے کہ جب سے انھوں نے اداکاری کرنا شروع کی انہیں سب کچھ معلوم ہوگیا، کیا تجربے کی کوئی اہمیت نہیں؟
" بڑے پروڈکشن ادارے چاہتے ہیں کہ قسطیں اور سیریلز ایسی لڑکیوں کے ساتھ چلائیں جنھوں نے اس فیلڈ میں ابھی قدم ہی رکھا ہوتا ہے۔ دو ڈراموں میں کام کرکے شہرت حاصل کرنے والی یہ لڑکیاں جینز پہنے سیٹ پر پانچ پانچ گھنٹے تاخیر سے پہنچتی ہیں، اور پھر وہاں کافی کا مطالبہ کرنے لگتی ہیں، وہ خود فیصلہ کرتی ہیں کہ ڈرانے میں کیا پہننا چاہئے اور تیاری شروع ہوتی ہے، جب وہ تیار ہوجاتی ہیں ہمارے شوٹنگ کا آدھا دن ضائع ہوچکا ہوتا ہے۔
لوگ جیسے قوی خان نے مجھے بتایا ' تمہارے پاس پورا دن ہے تو یہاں وہاں گھوم لو، میرا جواب یہ تھا کہ میں گھومنے کی بجائے یہ وقت کسی اور کام یا اپنے خاندان کے ساتھ کیوں نہ گزاروں؟
پی ٹی وی کے دور کو یاد کرتے ہوئے وہ تصاویر اور 60، 70 اور 80ءکی دہائی کی اسٹلز نکال لائیں " ہم تعلیم یافتہ افراد کے ساتھ کام کرنے کے عادی تھے، یہاں تک کہ ان کے ساتھ تو بات کرنا بھی سیکھنے کا تجربہ ثابت ہوتا ہے۔ ہمیں پی ٹی وی بروقت مکمل طور پر شوٹ کے لیے تیار ہوکر آنے کی تربیت دی گئی تھی، اب جب مختلف چینیلز کے ڈرائیورز مجھے لینے آتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ شوبز کی واحد خاتون ہے جو ہمیں انتظار نہیں کراتیں۔ کچھ افراد تو ہمیں چار چار گھنٹوں تک کھڑا رکھتے ہیں"۔
بدرخلیل کی نظر میں ہمارے ڈراموں کی کہانیاں لڑکے لڑکیوں کے پلاٹس تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے اور ایک نوجوان خوبصورت جوڑا سیریل کو لیکر چل رہا ہوتا ہے۔ " کیریکٹر رولز کو کیا ہوا اور اچھی معاون کاسٹ کی اہمیت کہاں گئی؟ شک میں میرا کردار کافی اچھا اور مضبوط تھا اورحیرت انگیز فیڈبیک ملی۔ میں نے اپنا دل اور روح اس کردار پر لگائے اور مصنف نے مجھے بتایا کہ میری پرفارمنس نے لوگوں کو رلا دیا تھا، مگر شمیم ہلالی کے کردار کو بڑھایا گیا اور اسے ڈرامے میں واپس لایا گیا"۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ٹی وی کی جانب سے ملنے والا لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ایک تلخ حقیقت کو اپنے ساتھ لیکر آیا" میں اگلی صف میں سلطانہ صدیقی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی، جنھیں کافی طویل عرصے سے جانتی ہوں۔ فواد خان نے کچھ دور سے انہیں آواز دی اور کہا کہ وہ ان کے ساتھ بیٹھنا چاہتا ہے ورنہ وہ شو سے چلا جائے گا۔ اگر وہ نوجوان شخص مجھ سے درخواست کرتا تو بات مختلف ہوتی۔ میں اتنی دلبرداشتہ ہوئی کہ میں وہاں سے نکل کر گھر واپس آگئی"۔
مگر کیا ان کے شوبز میں زیادہ دوست نہیں؟
" روبینہ اشرف، بشریٰ انصاری، عائشہ عمر، صبا پرویز اور ماریہ واسطی اچھی خواتین ہیں مگر عام تناظر سے دیکھا جائے تو شوبز میں میرا کوئی دوست نہیں۔ میرے شوہر خلیل مجھے کہتے تھے کہ اپنے قریب ترین دوستوں کے لیے بھی ایک لائن کھینچ کر رکھو تاکہ وہ تمہیں تکلیف نہ پہنچاسکے۔ بہروز سبزواری، جاوید شیخ، آصف رضا میر عملی طور پر ہمارے گھر میں رہے اور ہمارے بیٹوں کے ساتھ پلے بڑھے۔ اب جب وہ کامیاب ہوکر اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں تو انہیں مجھ جیسے شخص کی پروا نہیں۔ پی ٹی وی 50 سالہ جشن منا رہا ہے مگر مجھے اس میں شہزاد خلیل کی کوئی یادگار نظر نہیں آتی، کیا لوگوں کو بھولنا اتنا ہی آسان ہے؟ اس بات پر یقین کرنا بہت مشکل ہے"۔
یہ انٹرویو جب لیا گیا ان دنوں بدر خلیل اپنے پراجیکٹس مکمل کرانے میں مصروف تھیں "اگلے دن جب میں ایڈوانس ادائیگی پر کچھ کمینے پن کا سامنا کررہی تھی اچانک میرا بلڈ شوگر گر گیا اور مجھے ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ اس وقت میں دولت یا شہرت نہیں چاہتی، میں صرف عزت اور وقار چاہتی ہوں"۔
یہ انٹرویو ڈان سنڈے میگزین میں جولائی 16