نقطہ نظر

پاکستانی رمضان

ہم نے کبھی دین کو اپنے پیٹ پالنے کے لئے بیچا، کبھی دوسرے کا پیٹ کاٹنے کے لئے بیچا.

دنیا کے تمام ملکوں میں مذہبی تہوار بڑے جوش و جذبے سے مناۓ جاتے ہیں. خوب عبادات ہوتی ہیں.

ہندو مذہب میں "نوراتری" بڑے جذبے سے منائی جاتی ہے اس تہوار کے موقعے پر ہندو مذہب کے لوگ روزے رکھتے ہیں، پرشاد بانٹتے ہیں، دکانوں اور بازاروں میں اشیاۓ خورد و نوش کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی دیکھنے کو ملتی ہے. دیگر اشیاۓ ضروریات مثَلاً کپڑا، جوتے وغیرہ کی قیمتوں میں بھی اچھی خاصی کمی دیکھنے کو ملتی ہے، اور لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم منافعے پر اشیاۓ ضروریات فروخت کریں، تاکہ وہ اپنا مذہبی فریضہ بھی پورا کرے اور معاشرتی بھی.

بالکل اسی طرح کرسمس، ایسٹر، ہولی، دیوالی یا دیگر مذہبی تہواروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ شاپنگ سینٹرز یا عام بازاروں میں قیمتیں بالکل نیچے اتر آتی ہیں، خصوصی مارکیٹس لگتی ہیں جن میں کم قیمت اشیاۓ ضروریات رکھی جاتی ہیں، ایسی مارکیٹیں حکومت کی طرف سے بھی لگائی جاتی ہیں، جبکہ نجی کمپنیاں بھی اسے اپنا مذہبی و معاشرتی فریضہ سمجھتی ہیں.

دنیا میں پائے جانے والے مسلمان ملکوں میں بھی مذہبی تہواروں کے دوران جوش و خروش پایا جاتا ہے خصوصا رمضان میں تمام مسلمان یا غیر مسلمان ملکوں میں اشیاۓ خورد و نوش و ضروریات کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی نظر آتی ہے. غیر مسلمان ملکوں میں جہاں بھی مسلم آبادی کثیر تعداد میں پائی جاتی ہے وہاں رمضان میں قیمتیں انتہائی نیچے آ جاتی ہیں.

نئے سال کی آمد پر آسٹریلیا میں لوگ اپنا ساز و سامان تبدیل کرتے ہیں، پرانا سامان گھرکے باہر فٹ پاتھ پر رکھ دیا جاتا ہے تا کہ کوئی بھی ضرورت مند اسے اپنے استعمال میں لا سکے، کئی ضرورت مند اس عمل سے مستفید بھی ہوتے ہیں، جبکہ اس عمل سے کسی کو احساس کمتری بھی نہیں ہوتا، یہاں تو دس روپے کی نیاز بھی کم سے کم دس لوگوں کے علم میں لا کر تقسیم کی جاتی ہے.

رمضان گو کہ ساری مسلم دنیا میں اسلامی ٹریننگ کا مہینہ گردانا جاتا ہے جس میں اسلامی فریضے، اسلامی تعلیمات میں خود کو ڈھالنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے اور یہ ٹریننگ کی جاتی ہے کہ سال کے بارہ مہینے یہی روایات اپنائی جایئں.

اس مہینے میں ٹریننگ کی جاتی ہے کہ نماز کی پابندی کو اپنایا جاۓ، زکوات، صدقہ و خیرات دی جایئں، اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جاۓ. صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جاۓ، برداشت کا مادہ پیدا کیا جاۓ عدم برداشت کو ترک کیا جاۓ. رواداری، کینہ شکنی، جھوٹ سے پرہیز، صلہ رحمی، وغیرہ کی خاص تربیت کو اپنانے کا درس دیا جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ سب گن اپنا کے اللہ رب العزت کی بے شمار نعمتیں و رحمتیں لوٹنے کا موقع ملتا ہے جس سے بھر پور فائدہ اٹھایا جاتا ہے.

نماز و تراویح کے ذریعے اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرنے کا بھرپور موقع ملتا ہے. روزہ کی بھوک برداشت کر کے خود کو قابل برداشت بنانے کا موقع بھی اسی ماہ بابرکت میں ملتا ہے.

ساری دنیا میں جہاں بھی مسلمان بستے ہیں اس ماہ میں مذہبی تربیت حاصل کرتے ہیں اور جتنا ہو سکے خود کو گناہوں سے دور رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں.

پوری دنیا کے نقشے پر فقط پاکستان ایسا ملک ہے جس میں رمضان کا بڑی بے صبری سے انتظار کیا جاتا ہے، اور یہ مہینہ شروع ہوتے ہی رمضانی مینڈک باھر آ جاتے ہیں اور لوٹ مار کا بازار گرم کر دیتے ہیں، باقی دنیا میں بھی اس مہینے میں لوٹ مار ہوتی ہے لیکن وہ مسلمان رحمتیں لوٹتے ہیں ہم مسلمانوں کو لوٹتے ہیں، ساری دنیا میں اشیاۓ ضروریات کی قیمتیں کم سے کم تر ہو جاتی ہیں جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں رمضان کریم کا مہینہ شروع ہوتے ہی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں، زخیرہ اندوز مافیا سر اٹھا کے نکل آتی ہے اور خوب لوٹ مار کا بازار گرم کرتی ہے، اس ماہ بابرکت میں پاکستان کے ہر دکاندار، ریڑھی والے، چھابڑی والے، دھوبی، درزی یہاں تک کے گداگر بھی لوٹ مار میں مشغول ہو جاتے ہیں، جس کو جتنا موقع ملتا ہے لوٹتا ہے، کیوں کہ ان کو پتا ہے کہ یہ دن سال بعد آنے ہیں.

ہوس نے لوگوں کو اندھا کر دیا ہے، گداگر بھی رمضان میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے وہ بھی اپنی بستیوں سے نکل کر بڑے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں، پاکستان میں تو انٹرنیشنل گداگر بھی پاۓ جاتے ہیں جو رمضان میں بیرون ممالک کا رخ کرتے ہیں خاص طور پر مڈل ایسٹ کے ممالک میں ان کی خاصی تعداد جاتی ہے کوئی عمرے کا ویزا لے کر تو کوئی زیارتوں کا اور وہاں جا کے خوب کماتے ہیں، ہم لوگوں نے تو رمضان کو بھی ذریعہ معاش بنا لیا ہے.

پاکستان میں تو رمضان کو بھی بیچا جاتا ہے، سحری سے لیکر افطاری تک فجر سے لیکر تراویح تک، ہر چیز کو بیچا جاتا ہے، مداری قسم کے لوگ جنہیں "رمضانی مینڈک" بھی کہا جا سکتا ہے اسکرینوں پر براجمان ہو جاتے ہیں اور مسلمانوں کو تکا لگانے کی تلقین کرتے ہوے نظر آتے ہیں.

موبائل فون اور ڈنر سیٹ تو بہت بڑی چیز ہے یہاں تو بریانی کی پلیٹ پر بھی ہجوم لگ جاتا ہے، تیس دن کی ہر ایک چیز کو کمرشل بنا دیا جاتا ہے، ہم ایسی قوم ہیں جو مذہب کو بھی بیچ دیتے ہیں کیوں کے ہم جانتے ہیں کہ دو چیزوں پر ہی دنیا میں لوٹ مار مچی ہوئی ہے؛ ایک مذہب اور دوسرا وطن.

ہم دونوں کو خوب بیچتے ہیں، رسوا کرتے ہیں، کیوں کہ بیچتا تو وہ نہیں ہے جس کا ایمان ہو، ہم نے تو سب سے پہلی واردات اپنے ایمان کو بیچ کر ڈالی ہے، مسجدوں سے لیکر فرقوں تک ہر چیز کو بیچنے کا ہم لوگ ریکارڈ رکھتے ہیں، ہم نے کبھی دین کو اپنے پیٹ پالنے کے لئے بیچا کبھی دوسرے کا پیٹ کاٹنے کے لئے بیچا.

اسکرینوں پر جلوہ گر ہونے والے اپنی دکان کو چمکانے کے چکر میں اخلاقیات وغیرہ سب بھول جاتے ہیں، کہیں بچہ گفٹ کر کے دین کو رسوا کیا جاتا ہے تو کہیں فرج اور واٹر کولر کا استعمال کیا جاتا ہے، جس کو خدا نے اولاد کی نعمت سے نہیں نوازا اسے ان جیسے مداری کیا نواز سکتے ہیں، بے شک، میرا رب بہتر فیصلے کرنے والا ہے، یہ لوگ اس مداری کھیل سے کوئی ثواب نہیں کما رہے بلکہ اپنے پیٹ پالنے لے لئے ایسے شرمناک کھیل کر رہے ہیں.

رمضان میں سحری اور افطاری کے دو وقت میں جرائم کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے، جرائم پیشہ عناصر اس وقت کا تعین اس لئے کرتے ہیں کیوں کہ اس وقت روزے دار اپنے کام میں مصروف ہوتے ہیں. اس ماہ بابرکت میں ہم لوگ سحری اور افطاری کے وقت کا بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں، اور بھلا جرائم پیشہ افراد فائدہ کیوں نہ اٹھائیں جب سب طبقات اپنے اپنے دھندے کو اس ماہ میں چمکانے میں لگے ہوئے ہیں اور سب کی چاندی ہے تو یہ کیوں کر پیچھے رہیں.

پاکستان میں کم و بیش ہر بندہ رمضان میں واردات ڈالنے کے مواقع تلاش کرتا نظر آتا ہے اربوں سے لیکر سیکڑوں تک کے وارداتیے پاکستان میں اس ماہ میں کثیر تعداد میں پاۓ جاتے ہیں، سستے بازاروں کے نام پر واردات، یوٹیلیٹی اسٹورز کے نام پر واردات، سبسڈی کے نام پر واردات، تبلیغ کے نام پر واردات اور پھر رویا جاتا ہے کہ برکت نہیں.

ہمارے ہاں تو روزہ رکھنے والے افراد بھی عجیب واردات کرتے ہیں، جو شخص روزہ رکھتا ہے وہ دوسروں پر دھونس جماتا ہے، خاص طور پر سرکاری ملازمین کا رویہ دیکھنے جیسا ہوتا ہے جو خود کو روزے دار ثابت کرنے کے انیک حربے استعمال کرتا ہے. روزے کی بنیادی تعلیم 'برداشت' کو تو ایسے خوبصورت انداز سے نبھاتے ہیں کے اس کی تو نظیر نہیں ملتی، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے روزہ رکھ کر کسی پر احسان کیا جا رہا ہے.

اس ماہ میں حکومتیں خصوصی سبسڈی دیتی ہے اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے خصوصی کمیٹیاں بنائی جاتیں ہیں جو قیمتوں پر نظر رکھتی ہیں، یہاں بھی ایسے کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں، لیکن وہ بھی اپنا اصل کام چھوڑ کے واردات کرنے کے درپے ہوتی ہیں، کہیں واردات ہو تو ان کو بھی واردات کا موقع ملے.

باقی سب باتیں تو چھوڑو میاں صاحب آپ صرف آلو کی قیمت پر ہی ضابطہ لے آئیں، آپ کے وزیر صاحب نے تیس روپے فی کلو کی بات کی تھی وہی قیمت مقرر کروادیں آپ کی پاکستان کی "وارداتیاتی" قوم پر وارداتی مہربانی ہو گی. لیکن مجھے پتا ہیں یہ حسین واردات حکومت کے بس کی بات نہیں کیوں کہ وہ تو کسی اور ہی واردات کے چکر میں ہیں.

تنویر آرائیں

لکھاری اینکر پرسن اور تجزیہ کار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں، اور ان دنوں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پرtanvirarain@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔