!روزے داروں قیامت کے دن ہیں
گاڑی کا دروازہ کُھلا، باریش ہستی باہر تشریف لائی، تیزی سے آگے بڑھی اور موٹر سائیکل پہ بیٹھے نوجوان کو زوردار تھپڑ رسید کرڈالا۔ بس پھر کیا تھا۔۔۔ ایک گھمسان کی جنگ کا سماں تھا۔۔۔۔ دست و گریباں ہوئے دونوں حضرات وہ وہ گالیاں فرما رہے تھے کہ ساتھ لگے مجمعے میں ہر شخص لطف اندوز ہو رہا تھا۔۔۔
لگ تو ایسا رہا تھا جیسے نوجوان نے بڑے میاں کی صاحب زادی کو 'آئی لو یو' کہہ دیا ہو اور جناب کی بری طرح ہٹ گئی ہو۔ حیرت اس بات کی تھی کہ درجنوں حاضرین کی موجودگی میں یہ کشتی کا گیم ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ لوگ صلح صفائی کرانے کے بجائے یا تو اس حسین ایونٹ کو اینجوائے کر رہے تھے یا نفی میں سر ہلا کر افسوس کا اظہار کر رہے تھے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں مزید بگڑی صورتحال کی خواہش ہو اور یہ سوچ کر نفی میں سر ہلا رہے ہوں کہ اس طرح تھوڑی ہوتا ہے یار!
لیکن خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ گالیوں کی گونج قریب میں آرام فرماتے کسی پیٹی بند بھائی کے کانوں سے ٹکرائی، طیش میں مجمع چیرتے ہوئے دونوں پارٹیوں تک جا پہنچے۔ طاقت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے گلے لگے دشمنوں کو پرے ہٹایا۔ اور چلاتے ہوئے پوچھا؛
مسئلہ کیا ہے!؟
کیوں شہر کا امن و امان خراب کر رہے ہو۔ تم جیسے دہشت گردوں کی وجہ سے ہی اس خوب صورت شہر کی رونقیں برباد ہوگئی ہیں۔ دیکھ نہیں رہے لوگ سڑک کنارے آرام کر رہے ہیں۔ ویسے ہی غریبوں کا پرسان حال نہیں اس پر تم لوگ نیندیں حرام کرنے آجاتے ہو۔ خدا کا خوف کرو قیامت کی گرمی ہے! کیا ہوگیا ہے جو ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہو؟
سر جی بڑے میاں ایک تو گاڑی ٹھیک سے چلا نہیں سکتے، اوپر سے بھرم! گالیاں سنی آپ نے جناب؟ میں کیا ان کے باپ کا نوکر ہوں جو مار بھی کھاؤں، گالیاں بھی سنوں اور خاموش رہوں؟ برداشت کی حد ہوتی ہے سر جی! اس سنکی بڈھے نے مجھے غصہ دلا دیا ہے۔ اگر میرا روزہ نا ہوتا تو آج اس کو اوپر ہی بھیج دیتا!
چپ کر اوۓ، تیرے باپ نے تجھے تمیز نہیں سکھائی، عمر کا تو لحاظ کر۔۔۔۔
کانسٹیبل صاحب آپ بیچ میں نا آؤ، اس بچے کو تو میں آج افطار تک روکے رکھوں گا۔ زرا روزہ کھل جائے میں نے اس کی ایسی کی تیسی کر دینی ہے۔ یہ بچ نہیں سکے گا!
تیری تو۔۔۔۔!!!
ایک بار پھر جنگ چھڑ گئی۔
گالیوں کی بوچھاڑ میں پھنسے پولیس والے نے بڑی مشکل سے بیچ بچاؤ کرا کر معملہ رفع دفع کرایا۔ لیکن جاتے جاتے مجمعے میں کھڑے لوگوں کو دو چار نواز ہی دیں۔ کہنا اس کا بھی یہی تھا کہ روزہ نا ہوتا تو دونوں کو اندر کردیتا اور تماش بینوں کی بھی ایسی تیسی کر دیتا۔
میں بھی اسی مجمعے کا حصہ تھا۔ ذہن شاید معذور تھا۔ شعور اور کانفیڈنس کی کمی کی وجہ سے بیچ بچاؤ کرانے کی ہمت نا ہوئی۔ البتہ دیر تک نظروں کے گرد ان دو معصوم بچوں کے چہرے گھومتے رہے جو حیرت سے روزے داورں کو لڑتا دیکھ رہے تھے۔ شاید وہ ابھی اتنی عقل نا رکھتے ہوں کہ سوال کرسکیں کہ غصّے پر قابو رکھنا بھی روزے داورں پر فرض ہے۔ وہ تو اسے کوئی تفریحی سرگرمی سمجھ کر برداشت کرگئے ہونگے لیکن میرے جیسے ذہنی معذور یہی سوچتے سوچتے مرے جاتے ہیں کہ قیامت کے دن ایسے نہیں ہونگے تو کیسے ہونگے
روزے داروں! قیامت کے دن ہیں۔۔۔!
صادق رضویایگزیکیٹو پرودیوسر اینڈ پروگرم اینکر ڈان نیوز
صادق رضوی ڈان نیوز میں اینکر اور ایگزیکٹو پروڈیوسر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔