نقطہ نظر

چار صوبے، چار بجٹ اور ترقیاتی منصوبے

کہتے ہیں مایوسی کفر ہے لیکن تکفیری نظریے کا یرغمال یہ ملک جس سمت میں بڑھ رہا ہے اسے دانشمند قیادت ہی بچا سکتی ہے-

وفاقی بجٹ کے بعد چاروں صوبوں نے یکے بعد دیگرے اپنے اپنے صوبوں کے بجٹ پیش کردیئے لیکن عوام کی توجہ حاصل نہ کرسکے- ملک میں ایک عجیب خلفشار ہے، پاکستان حالت جنگ میں ہے- شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں آئی ڈی پیز اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں-

دوسری طرف دہشتگردی ہے، دہشتگردوں کے حملے ہیں اور ایک نئی دہشت طاہرالقادری نے وفاقی حکومت پر مسلط کردی ہے- گلو بٹ اور طاہرالقادری انٹرٹینمنٹ سے کسے فرصت ہے کہ بجٹ کے بارے میں سوچے- پہلے طاہرالقادری سے نمٹ لیں پھر دیکھا جائے گا-

مہنگائ ---- ہاں وہ تو ہے-

اور بڑھے گی؟ ہاں بڑھے گی-

کیوں؟ آخر رمضان ہے بھئی!

عوام تو ٹی وی کے سامنے بیٹھے "ڈرامے" پر "ڈرامہ" دیکھ رہے ہیں- لیکن اس بیچ علماۓ معاشیات بھی اپنا کام کرنے پر مجبور ہیں- ناقدین کی رائے میں چاروں صوبوں کے بجٹ سے جو مجموعی صورتحال سامنے آئی ہے وہ ہے بجٹ سیاسی مفادات کے تابع ہیں- گزشتہ سال کے اہداف پورے نہیں ہوئے لیکن نئے اہداف مقرر کرنے میں مبالغہ سے کام لیا گیا ہے-

شفافیت نظر نہیں آتی- دعوے بلند و بانگ ہیں لیکن عمومی خیال یہی ہے کہ اس بار بھی پورے نہیں ہونگے- کیونکہ نہ تو وفاقی حکومت میں اور نہ ہی صوبائی حکومتوں میں کوئی عزم نظر آتا ہے- حقیقت میں دیکھا جائے تو اس وقت ساری حکومتیں لاچار نظر آتی ہیں، شائد عوام سے بھی زیادہ----

بہر حال، آیئے سب سے بڑے صوبے سے شروعات کریں- پنجاب نے 1.033 ٹریلین روپے کا بجٹ پیش کیا- ہدف یہ ہے کہ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی میں 47 فی صد کا اضافہ کیا جائے گا- لیکن سوال یہی اٹھتا ہے کہ جب سال گزشتہ کا ہدف پورا نہ ہوسکا تو اس سال کیسے ہوگا؟ اس کا کوئی جواب نہیں ملتا-

پنجاب نے ترقیاتی منصوبوں پر گزشتہ سال کے مقابلے میں 54 فی صد اضافی مصارف ظاہر کیئے ہیں- اس بار صوبائی حکومت کی توجہ جنوبی پنجاب کی جانب ہے اور ہمیشہ کی طرح میگا پروجیکٹس کے منصوبے ہیں جو خادم اعلیٰ پنجاب کا ٹریڈ مارک ہیں- ن-لیگ کی حکومت نے پنجاب میں اپنے بجٹ کا 36 فی صد حصہ ترقیاتی کاموں کے لئے مختص کیا ہے جو صحت، تعلیم اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانے پر صرف کیئے جائنگے-

کے پی میں عمران خان اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت نے 404 بلین روپے کا مجموعی بجٹ پیش کیا جو متوازن بجٹ ہے جس میں نہ تو خسارہ ہے اور نہ ہی اضافی آمدنی- ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی میں 89 فی صد کا اضافہ ظاہر کیا گیا ہے جو سال گزشتہ کے مقابلے میں تقریباً دوگنا ہے- لیکن یہ کس طرح ہوگا اسکی وضاحت نظر نہیں آتی-

ترقیاتی منصوبوں کے لئے بجٹ کا 34.4 فی صد حصہ مختص کیا گیا ہے جو پنجاب کو چھوڑ کر دوسرے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے- سیاسی میدان کی طرح عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کا مقابلہ معاشی میدان میں بھی شریف برادران کی ن-لیگ سے ہے-

کہتے ہیں شہباز شریف نے لاہور کو خوبصورت بنادیا- اب کے پی کی حکومت پشاور کو خوبصورت بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے- ٹرانسپورٹ کے نظام کو بھی بہتر بنایا جائے گا اور سڑکیں بھی تعمیر ہونگی- گویا مقابلہ پنجاب سے ہے-

سندھ کی حکومت نے 686 بلین روپے کا بجٹ پیش کیا جس کا 29.5 فی صد ترقیاتی کاموں کے لئے مختص کیا گیا ہے. ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی میں 20 فی صد کا اضافہ ظاہر کیا گیا ہے- ایسا معلوم ہوتا ہے چونکہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت کو کسی خاص پارٹی کے چیلنج کا سامنا نہیں اس لئے کوئی خاص جوش و خروش دکھائی نہیں دیتا-

پی پی پی کے لئے لازم تھا کہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لئے سرگرمی دکھاتی- لیکن امن عامہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر سرمایہ کاری کے امکانات نظر نہیں آتے، ساتھ ساتھ قائم علی شاہ کے ناتواں کندھے میگا شہر والے اس صوبے کا بوجھ اٹھانے کے قابل محسوس نہیں ہوتے-

چنانچہ سندھ نے اس بار اپنے ترقیاتی منصوبوں میں پہلے ہی کٹوتی کردی ہے- شائد سندھ کی حکومت اپنے بار بار کے تجربے سے سیکھ چکی ہے کہ ایسی مبالغہ آرائی کس کام کی کہ بعد میں کٹوتی کرنی پڑے کیونکہ جب کٹوتی ہوتی ہے تو پہلا شکار ترقیاتی منصوبے ہی ہوتے ہیں-

اگر پنجاب، کے پی اور سندھ کے ترقیاتی بجٹوں کا مقابلہ کیا جائے تو پنجاب اور کے پی نے اپنے ترقیاتی بجٹوں میں پچھلے سال کے مقابلے میں 19 فی صد کا اضافہ کیا ہے جبکہ سندھ نے سالانہ ترقیاتی منصوبوں میں 9 فی صد کی کمی کردی ہے-

بلوچستان میں ڈاکٹر مالک کی مخلوط حکومت نے 215.7 بلین روپے کا بجٹ پیش کیا جس کا 23.5 فی صد سالانہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص کیا گیا ہے جو چاروں صوبوں میں سب سے کم ہے- اسکی وجہ شائد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہاں وفاقی حکومت کی جانب سے کئی ایک منصوبے بنائے جائنگے جیسے گوادر پوٹ، ایئر پورٹ اور دیگر لاجسٹک منصوبے وغیرہ-

صوبائی حکومت نے سماجی اور معاشی شعبے پر توجہ دینے کا عندیہ ظاہر کیا ہے- ترقیاتی منصوبوں کے لئے 51 بلین روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 13 فی صد زیادہ ہے- تعلیم، صحت، توانائی اور زراعت کو ترقی دینے کے لئے کئی نئی اسکیمیں شروع کی جائنگی-

صوبے میں ایک زرعی یونیورسٹی تعمیر کرنے کا بھی منصوبہ ہے- لیکن بلوچستان میں دہشت گردی، فرقہ واریت، نسل کشی، بھتہ خوری، سرکشی کے پیش نظر یہ کہنا مشکل ہے کہ صوبائی حکومت اپنے منصوبوں پر عمل درآمد کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوگی-

مختصر یہ کہ، وفاقی بجٹ ہو یا صوبائی بجٹ، عوام کو روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی- ملک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر نہ تو قیادت اور نہ ہی عوام میں معاشی سرگرمیوں کے تعلق سے کوئی جوش یا جذبہ دکھائی دیتا ہے- کہتے ہیں مایوسی کفر ہے لیکن تکفیری نظریے کا یرغمال یہ ملک جس سمت میں بڑھ رہا ہے اسے کوئی دانشمندانہ قیادت ہی بچا سکتی ہے-

سیدہ صالحہ

لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں، اور سماجی مسائل اور ادب پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔