تخت لہور اور احساسِ محرومی
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/96548160" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]
کہاں تخت لہور اور کہاں احساسِ محرومی، دیکھنے میں تو دونوں کا ایک دوسرے سے کوئی جوڑ نہیں۔ لیکن اگر تھوڑا پیچھے گذرے پانچ سالوں پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوجائیگا کہ تخت لہور جو ساٹھ سالوں سے بلا کسی کی شرکت کے پیارے پاکستان کے سیاہ وسفید کا مالک بنا بیٹھا تھا۔ اس نے پچھلے پانچ سالوں میں پہلی بار احساسِ محرومی کو حقیقت میں محسوس کیا۔ کہنے کو تو وہ پھر بھی کسی نا کسی طرح سیاہ وسفید کا مالک بنا رہا کیونکہ بیوروکریسی اورپاک افواج میں تو اکثریت اب بھی اسی کی ہی ہے۔
یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ بیوروکریسی اور پاک افواج ملک کی باگ ڈور ابھی تک بھی اپنے ہی ہاتھ میں رکھنا پسند کرتی ہے۔ سو بھلے ہی چھوٹی قوموں کے منتخب نمائندے مرکز میں اقتدار کے مالک دکھائی دیے، لیکن ہوا تو پھر بھی وہی جو اقتدار کے اصل مالکان کو پسند تھا۔
اس کے باوجود کہ حکومت چھوٹے صوبوں کے نمائندوں پر ہی مشتمل تھی۔ اپنا تخت لہور جو کھانے پینے اور خرچ کرنے میں ہمیشہ سے ہی کُھلا ڈُلا رہا ہے۔ اس میں احساس ِمحرومی کا پیدا ہونا لازمی تھا کہ مرکز میں اس کی نمائندگی نہیں تھی اور مرکز کے بغیر رہنا کتنا مشکل ہے، یہ تو تخت لہور والے ہی جانتے ہیں۔
لاہور اور اسلام آباد میں فاصلہ ہی کتنا ہے؟ اسے توآباد ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ سارے مسائل دن ڈھلنے سے پہلے ہی حل ہوجائیں۔ میاں صاحب نے موٹروے بنانے کی تکلیف بھی اسی لیے اٹھائی تھی اور آپ نے دیکھا بھی کہ موٹروے بننے سے یہ سب ممکن بھی ہوا۔
لیکن پچھلے پانچ سال میں اتنی دور دور سے آئے لوگوں نے نا صرف اسلام آباد میں بیٹھ کر مزے اڑائے بلکہ اپنے تخت لہور کے باسیوں کا تو مذاق بھی اڑایا اور بلا وجہ چھیڑ خانی بھی کی۔ اب اِدھر چھوٹی چھوٹی قوموں اور چھوٹے چھوٹے صوبوں کے لوگ اسلام آباد پر راج کر رہے تھے تو اُدھر تخت لہور بغیر بجلی اور گیس کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔
کہنے کو تو تخت لہور والوں نے ووٹ بھی اسی نام پر لیا کہ یہ اندھیرے اور گیس سے محرومی کا سبب ایک تو مرکز والے اور دوسرے یہ چھوٹے صوبے بھی ہیں کہ تخت لہور کو اس کے بڑے ہونے، اکثریت میں ہونے کی سزا دے رہے ہیں۔ انشااللہ ہم حکومت میں آتے ہی اندھیرے ختم کرکے آپ سے چھینی ہوئی روشنی لوٹا دینگے۔
اب جب تخت لہور والے مرکز میں آ گئے ہیں تو فرماتے ہیں کہ چھینی ہوئی روشنیاں لوٹانے میں تو سال لگ جائینگے۔ وزیر صاحب نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ سی این جی چاہیئے یا بجلی یہ فیصلہ بھی عوام ہی کریں کہ ہم تو دونوں میں سے کوئی ایک چیز بھی مشکل سے دے سکتے ہیں۔
اصل میں اپنے بھولے عوام پینسٹھ سال گذرنے کے بعد بھی یہ چیز سمجھ نہیں پائے ہیں کہ اقتدار سے باہر اور اقتدار میں بولی جانے والی زبانیں دونوں الگ الگ ہوتی ہیں۔ وہ ریل کی پٹریوں کی طرح کبھی بھی ایک نہیں ہوسکتیں۔
بندہ کوئی بھی ہو اقتدار کی لکیر کے اِس پار اسے وہی بولنا ہوتا ہے جو وہاں بولا جاسکتا ہے اور لکیر پار کرنے کے بعد تو وہیں کی بولی بولنی پڑتی ہے جو وہاں رائج ہے۔
آپ چاہیں کہ میاں صاحب اور اس کے ساتھی وہی بولی بولیں جو وہ باہر بول رہے تھے تو وہ تو جوشِ خطابت میں انسان کچھ بھی بول جاتا ہے۔