’رمضان مبارک‘ یا ’رمادھان کریم‘؟
رمضان کا با برکت مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ گرمی اور حبس روزے داروں کے صبر کا بھرپور امتحان لے رہے ہیں۔ ہمارے لیے ماہ صیام ناصرف مذہبی بلکہ ثقافتی حیثیت بھی رکھتا ہے۔
سحری کے اوقات پورے خاندان کا مل بیٹھنا، ادھ کھلی آنکھوں کے باوجود سحری کے لوازمات منہ میں ٹھونستے جانے اور آذان کی آواز سنتے ہی ہر حرکت میں تیزی کا آنا.
روزے کی حالت میں سکول یا نوکری کے لیے اٹھنے کی کوفت، سکول یا نوکری سے واپسی پر افطاری کا انتظار اور وقت کی رفتار کو کوسنا، افطاری سے چند لمحے قبل بے صبری کی حالت، مغرب کی پہلی آذان کے ساتھ ہی کھانے کی میز کی جانب دوڑ اور افطاری کے بعد ذہن پر چھایا خمار، یہ سب کچھ اور بہت کچھ مذہبی سے زیادہ ثقافتی علامات ہیں۔
ہمارے بہت سے عزیز و اقرباء ہر رمضان سے پہلے وزن کم کرنے کا ارادہ کرتے ہیں، ان کے خیال میں دوپہر کے کھانے سے نجات پانے کے سبب شائد پیٹ کی چوڑائی میں کچھ کمی دیکھنے کو ملے، البتہ ہم نے یہ خواب کبھی پورا ہوتے نہیں دیکھا۔ گمان ہے کہ سحری کے پراٹھے اور افطار کے سموسے وزن کی کمی نہیں، زیادتی کا موجب بنتے ہیں۔
رمضان سے ہماری بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ بچپن میں روزے رکھنے شروع کیے تو گویا وقت ڈھلنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ سحری کے لیے اٹھنا ایک مصیبت معلوم ہوتا، اور افطار کے وقت سب سے پہلی یہی دعا ہوتی کہ رمضان جلد ختم ہو جائے۔ کبھی رمضان میں امتحان دینا پڑ جاتا تو جان پر بن آتی۔ 2005ء میں خوفناک زلزلہ بھی رمضان کے پہلے عشرے میں دیکھا۔
بورڈنگ سکول کے دنوں میں صبح صبح خانساماں حضرات سٹیل کے برتنوں پر چمچ بجاتے سحری کے لیے اٹھانے کی کوشش کرتے اور ان کے بر عکس ہماری کوشش ہوتی کہ سحری کا وقت ختم ہونے سے قریب تر اوقات میں اٹھا جائے اور سحری کے بعد اپنی آرام گاہوں کی جانب دوڑ لگائی جائے۔
کالج پہنچے تو اپنی مدد آپ کے تحت سحری کے لیے اٹھنا پڑا، اور ابتدائی سالوں میں یہ حسرت رہی کہ کوئی سٹیل کے برتن پر چمچ سے ڈھولک بجانے والا میسر آ جائے۔
بورڈنگ سکول میں یہ راز بھی افشا ہوا کہ رمضان کے دوران مسلمانوں میں مسالک سے بالاتر ایک نئی تفریق دیکھنے کو ملتی ہے، یعنی وہ لوگ جو بیس رکعت تراویح پڑھتے ہیں اور وہ جو آٹھ کے بعد گھروں کی جانب دوڑ لگا دیتے ہیں۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے لیکن ہم نے بڑے بڑے دعوے داروں کو آٹھ رکعت کے بعد کن اکھیوں سے اِدھر اُدھر دیکھتے اور موقع ملتے ہی رفو چکر ہوتے دیکھا ہے۔
ہسپتال میں کام کرنے کا موقع ملا تو رمضان کے دوران بسیار خوری کی صحیح صورت حال دیکھنے کو ملی۔ روزے کا بنیادی مقصد سحری کے وقت گھی میں تلے پراٹھے منہ میں ٹھونسنے اور افطار کے وقت پکوڑے، سموسے اور دہی بھلے یا فروٹ چاٹ کا بے تحاشا استعمال نہیں بلکہ روزہ تو صبر اور استقامت کے امتحان کا نام ہے۔
رمضان کے دنوں میں معدے کے امراض اور خاص طور پر تیزابیت سے متعلق علامات کے ساتھ بہت زیادہ مریض ہسپتال کا رخ کرتے ہیں۔ سحری کے وقت دہی کا استعمال اور افطار کے وقت تلی ہوئی چیزوں سے اجتناب، ہمیں اس مسئلے سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔
ماہ ِ صیام کے دوران سرکاری اور نجی دفاتر میں کام کی رفتار میں واضح کمی نظر آتی ہے اور اس حوالے سے محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اکثر دفاتر دوپہر کے بعد بند نظر آتے ہیں حتیٰ کہ ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجود ایک آدھ کے علاوہ کوئی ڈاکٹر تک نظر نہیں آتا۔
کام کرنے کی عادت ویسے بھی ہمارے قومی مزاج کا حصہ نہیں، رمضان کے دوران ہمیں ایک نیا اور اصلی بہانہ میسر آجاتا ہے۔ سڑک پر نکلیں تو عجب کہرام برپا ہوتا ہے۔ یوں تو عام حالات میں بھی ہماری قوم ٹریفک قوانین کی پابندی کے ریکارڈ نہیں توڑ رہی ہوتی لیکن رمضان میں صورت حال اور سنگین ہو جاتی ہے۔ ہماری ناقص رائے میں مریضوں اور مسافروں کے ساتھ ساتھ ڈرائیوروں کو بھی روزے میں کچھ چھوٹ ملنی چاہئے۔
رمضان کا ایک پہلو جس پر ہم اکثر غور کرتے ہیں، اس مہینے کے دوران بڑھ جانے والی ’مذہبیت‘ ہے۔ مذہب کے احکامات پر عمل کرنا یا نہ کرنا انسانی اختیار میں ہے، الہامی کتب میں صحیح اور غلط راستوں کی نشاندہی کی جا چکی ہے اور ماننے والوں کے علاوہ منکرین کے ساتھ ہونے والے سلوک کی پیش گوئی بھی کی جا چکی ہے۔
ان حالات میں اپنے عقائد کسی دوسرے پر ٹھونسنا ’مذہبیت‘ کہلاتا ہے۔ اگر کوئی روزہ رکھنا چاہتا ہے تو وہ اسکا ذاتی عمل ہے اور اگر کوئی روزہ چھوڑنا چاہتا ہے، تو یہ بھی اسکا ذاتی عمل ہے۔ مجھے مذہب کی جانب سے یہ اختیار حاصل نہیں کہ زبردستی لوگوں کے روزے رکھواؤں یا روزہ چھوڑنے والوں پر سرعام تنقید کروں۔
ہمارے ہاں تو سرکاری طور پر دن کے اوقات میں عوامی مقامات پر کھانا پینا منع ہے اور ضیاء کے اس صدارتی آرڈیننس کو گزشتہ تیس سال میں آنے والے ہر صدر نے لاگو کیا ہے۔
دیگر اسلامی ممالک میں ایسا کوئی قانون نہیں، ہم آخر خود کو دین کا ٹھیکے دار کیوں سمجھتے ہیں؟ احترام رمضان ہر مسلمان ملک میں ہوتا ہے لیکن اس درجے کی سختی وہاں لاگو نہیں۔
ایک اور چیز جو گزشتہ کچھ برس سے مشاہدے میں آئی، روایتی ’رمضان مبارک‘ کی جگہ ولائتی مال ’رمدھان کریم‘ کی آمد ہے۔ اردو زبان فارسی، عربی اور ترکی زبان کے امتزاج سے تخلیق کی گئی لیکن اس نئی برآمد کا تعلق زبان کی ارتقاء سے زیادہ ’مذہبیت‘ کے فروغ سے ہے۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ عربی تلفظ میں ادا کردہ ہر لفظ 'مقدس' نہیں ہوتا۔
دعا ہے کہ یہ رمضان آپ کے لیے اور ہم سب کے لیے عافیت والا ثابت ہو۔
لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں
پڑھیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔