پاکستان کی اینٹی ہیرو 'بلڈی نسرین' سے ملاقات
مسلم دنیا میں خاتون افسانوی کرداروں کو اکثر پردے میں گم یا عاجز و مظلوم دکھایا جاتا ہے، تاہم لاہور سے تعلق رکھنے والے شاہان زیدی کے متعارف کردہ سپر ہیرو سے اس روایتی رویے کے خلاف مقابلے میں مدد ملے گی۔
زیدی کے انگریزی زبان کے گرافک ناول 'بلڈی نسرین' کا مرکزی کردار کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک ستائیس سالہ لڑکی کا ہے جو انسانی ڈھانچے کے پرنٹ والی قمیض، چوڑی دار پاجامہ اور جوگرز پہنتی ہے، جو کہ عام طور پر اس عمر کی لڑکیاں نہیں پہنتیں۔ یہ لڑکی ایک اینٹی ہیرو ہے کیونکہ اس کی تمباکو نوشی کی عادت اور جارحانہ فطرت کا مقصد ہی آپ کو تنگ کرنا ہے۔
زیدی کو نہیں لگتا کہ کرداروں کے اچھے نام انہیں اچھا بناتے ہیں، اسی لئے انھوں نے اپنی ہیروئین کو عام نام دیا تاکہ ہر ایک اس سے جڑ سکے۔
بدتمیز نظر آنے والی نسرین ظالم نہیں اور وہ دہشتگردی، ہیومن ٹریفکنگ، کرپشن اور ناانصافی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اور بیوقوف لوگ شیطان سے بھی زیادہ برے ہیں۔
بہت زیادہ ایکشن اور تشدد کے خلاف نسرین بغیر کسی سپر طاقت کے لڑتی ہے۔
زیدی کا کہنا ہے کہ میں ہمیشہ سے خلائی افراد کے مقابلے میں انسانوں کو زیادہ پسند کرتا ہوں، مجھے 'بیٹ مین' زیادہ پسند ہے۔
آخر میں کسی ایسے ہیرو کے ساتھ تعلق محسوس کرسکتا ہوں جو میرے سیارے کا ہی نہ ہو؟ یا جس کی سپر پاورز میری سوچ سے بالاتر ہو؟
زیدی کو توقع ہے کہ ان کا یہ ناول اکتوبر تک شائع ہوجائے گا جبکہ اس پر فلم کی تیاریاں پری پروڈکشن فیز تک پہنچ چکی ہیں۔
پاکستان کی پہلی سپر ہیروئین 'برقعہ ایوینجرز' جو اپنی شناخت چھپانے کے لیے برقعہ استعمال کرتی ہے، نسرین اکثر دوپٹے کے بغیر نظر آتی ہے۔
زیدی مسکراتے ہوئے کہتے ہیں نسرین کو اس بارے میں کچھ نہیں کہنا یہ اس کی اپنی پسند ہے۔
سوشل میڈیا پر ملا جلا ردِعمل سامنے آیا ہے مگر اس سے زیدی دلبرداشتہ نظر نہیں آتے، انہیں لگتا ہے کہ کامک بکس کا ایک حقیقی پرستار ان کامکس میں انجانی اور غصے سے بھری فل آف ایکشن لڑکیوں کی اہمیت کو سمجھ سکتا ہے۔