اسلام آباد : موت پر بھی احمدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک برقرار
چھاؤنی سے شہر میں تبدیل ہونے والے شہر راولپنڈی کے مری روڈ کے قریب جدید قبرستان کے باہر دروازہ پر ایک سائن بورڈ نسب ہے- اس بورڈ پر لکھی عبارت اپنے آپ میں خود ایک داستان ہے- "مرزائی حضرات کو یہاں دفن کرنے کی اجازت نہیں"
مرزائی اور قادیانی وہ توہین آمیز اصطلاحیں ہیں جا ہمارا معاشرہ پاکستان میں موجود احمدی برادری کے لیئے استعمال کرتا ہے- جب اس سائن بورڈ کی تصویر بنائی جارہی تھی تو مقامی شخص مشکوک نظروں سے دیکھ رہا تھا-
کئی دہائیوں سے احمدی، دوسرے مزہبی انتہا پسندوں اور دائیں بازو کی طاقتوں کی طرف سے ظلم و ستم کاسامنا کر رہے ہیں- احمدیوں کو غیر مسلم کہنے کا بیج 1974 میں بویا گیا، جب وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو نے دائیں بازو کی طاقتوں کو رام کرنے کے لئے ایک آئینی ترمیم متعارف کروائی، جس کے تحت احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا-
گیارہ مئی کے عام انتخابات سے قبل امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی (یو ایس سی آی آر ایف) نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں رکھا ہوا تھا جہاں مذہبی آزادی انتہائی محدود ہے-
احمدیوں کو نشانہ بنانے کا آغاز 1947 میں آزادی کے بعد ہی شروع کر دیا گیا تھا- جماعت اسلامی کی سربراہی میں، دائیں بازو کے دھڑوں نے احمدیوں کے خلاف چلائی گئی اس مہم میں تشدد کا عنصر 1953 میں پنجاب میں آیا جس کے نتیجے میں صوبے میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا-
پھر، ملٹری آمر ضیاء الحق نے اس مہم اور ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوے ایک آرڈیننس کا نفاز کیا- ام آرڈیننس تحت احمدیوں کے لئے اپنے آپ کو مسلم کہنا غیر قانونی قرار دے دیا گیا- ان پر اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہنے پر بھی پابندی لگا دی گئی-
اور پھر 2010 میں لاہور میں 86 احمدی عبادت گزاروں کو پنجابی طالبان نے بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا- گزرے سالوں میں مذہبی امتیاز جیسے نازک مسائل پر کھل کر بولنا خطرناک ہوتا گیا ہے- پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کا قتل اس کی واضح مثال ہے-
آج جبکہ یہ کمیونٹی تشدد اور مذہبی امتیاز کا شکار ہے، شاید یہ بات کم ہی لوگوں کو یاد ہو کہ ہمارے ملک سے نوبل انعام جیتنے والے واحد شخصیت، ڈاکٹر عبدل سلام کا تعلق بھی احمدی کمیونٹی سے تھا-